Pages

Saturday 22 February 2014

حیرت اس بات کی ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان ہے مگر پھر ہم ...

کیسے جھوٹ بول لیتے ہیں؟

ہم کیسے خود پر اور دوسروں پر ظلم کر لیتے ہیں ؟
ہم کیسے امانت میں خیانت کر لیتے ہیں؟

ہم کیسے غیبت کر لیتے ہیں ؟

ہم کیسے سود لیتے دیتے ہیں؟

کیسے ہماری جلوت و خلوت تضاد لیئے ہوتی ہے؟ کیسے ہم کسی کا حق غصب کر لیتے ہیں،

کیسے دنیا کی آزمائشوں کو کل وقتی سمجھ لیتے ہیں؟

کیسے اللہ کی بجاۓ زر، زن ، زمین ہماری زندگی و موت بن جاتے ہیں؟

کیسے ہم اللہ و رسول ﷺ کے احکام کی نافرمانی کر لیتے ہیں؟

حیرت ہے کیا واقعی ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں؟

کیا واقعی ہمیں روزِ آخرت پر ایمان ہے؟
ایک چور ایک باغ میں گھس گیا اور آم کے درخت پر چڑھ کر آم کھانے لگا.. اتفاقًا باغبان بھی وھاں آ پہنچا اور چور سے کہنے لگا.. " او بےشرم ! یہ کیا کر رھے ھو..؟ "

چور مسکرایا اور بولا.. " ارے بےخبر ! یہ باغ اللہ کا ھے اور میں اللہ کا بندہ ھوں.. وہ مجھے کھلا رھا ھے اور میں کھا رھا ھوں.. میں تو اسکا حکم پورا کر رھا ھوں ورنہ تو پتہ بھی اس کے حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا.. "

باغبان نے چور سے کہا.. " جناب! آپ کا یہ وعظ سن کر دل بھت خوش ھوا.. ذرا نیچے تشریف لائیے تاکہ میں آپ جیسے مومن باللہ کی دست بوسی کرلوں..

سبحان اللہ ! اس جہالت کے دور میں آپ جیسے عارف کا دم غنیمت ھے.. مجھے تو مدت کے بعد توحید و معرفت کا یہ نکتہ ملا ھے کہ جو کرتا ھے خدا ھی کرتا ھے اور بندے کا کچھ بھی اختیار نہیں.. قبلہ ذرا نیچے تشریف لائیے.. "

چور اپنی تعریف سن کر پھولا نہ سمایا اور جھٹ سے نیچے اتر آیا.. جب وہ نیچے آیا تو باغبان نے اس کو پکڑ لیا اور رسی کے ساتھ درخت سے باندھ دیا پھر خوب مرمت کی.. آخر میں جب ڈنڈا اٹھایا تو چور چلا اٹھا.. " ظالم کچھ تو رحم کر.. میرا اتنا جرم نہیں جتنا تو نے مجھے مار لیا ھے.. "

باغبان نے ھنس کر اس سے کہا.. " جناب ابھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ جو کرتا ھے اللہ کرتا ھے اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا.. اگر پھل کھانے والا اللہ کا بندہ تھا تو مارنے والا بھی تو اللہ کا بندہ ھے اور اللہ کے حکم سے ھی مار رھا ھے کیونکہ اس کے حکم کے بغیر تو پتہ بھی نہیں ھلتا.. "

چور ھاتھ جوڑ کر کہنے لگا.. " خدارا مجھے چھوڑ دے.. اصل مسئلہ میری سمجھ میں آگیا ھے کہ بندے کا بھی کچھ اختیار ھے.. "

باغبان نے کہا.. " اور اسی اختیار کی وجہ سے اچھے یا برے کام کا ذمہ دار بھی..!! "

" حکایات رومی "

Friday 21 February 2014

جتنا غرور چاھا تھا تم نے وہ پا لیا
تاریخ اب لکھیں گے تمھارے زوال کی
تو نے بھی اپنے خد و خال

جانے کہاں گنوا دئیے

میں نے بھی اپنے خواب کو
جانے کہاں گنوا دیا

تو مرا حوصلہ تو دیکھ
میں ہھی کب اپنے ساتھ ھوں

تو مرا قربِ جاں تو دیکھ
میں نے تجھے بھلا دیا

ھم جو گلہ گزار ھیں
کیوں نہ گلہ گزار ھوں

میں نے بھی اُس کو کیا دیا
اُس نے بھی مجھ کو کیا دیا

"جون ایلیا"

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے

سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے
لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراوں کے ٹیلے تھے

تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں ‌پہنچا
رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے

سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

کون غلام محمّد قاصر بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

شاعر: غلام محمد قاصر
آواز کے سائے

خبر نہیں تم کہاں ہو یارو

ہماری اُفتادِ روز و شب کی
تمہیں خبر مِل سکی ، کہ تم بھی
رہینِ دستِ خزاں ہو یارو
دِنوں میں تفرِیق مِٹ چُکی ہے
کہ وقت سے خُوش گُماں ہو یارو
ابھی لڑکپن کے حوصلے ہیں
کہ بے سروسائباں ہو یارو

ہماری اُفتادِ روز و شب کی
نہ جانے کتنی ہی بار اب تک
دھنک بنی اَور بکھر چُکی ہے

عُروسِ شب اپنی خلوتوں سے
سحر کو محرُوم کر چُکی ہے
دہکتے صحرا میں دُھوپ کھا کر
شفق کی رنگت اُتر چُکی ہے
بہار کا تعزیہ اُٹھائے
نگارِ یک شب گُذر چُکی ہے

اُمیدِ نو روز ہے کہ تُم بھی
بہار کے نوحہ خواں ہو یارو

تُمھاری یادوں کے قافلے کا
تھکا ہؤا اجنبی مُسافر
ہر اِک کو آواز دے رہا ہے
خفا ہو یا بےزباں ہو یارو

( مصطفیٰ زیدی از قبائے سَاز )


کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

مکمل غزل

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا

اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے
وہ ماہ رخ جو لبِ بام بھی نہیں آتا

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

بٹھا دیا مجھے دریا کے اس کنارے پر
جدھر حبابِ تہی جام بھی نہیں آتا

چرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے
اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا

شاعر: غلام محمد قاصرؔ
آج غلام محمد قاصرؔ کی برسی ہے

سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی

سرِشام کوئی جدا ہوا تو خبر ہوئی

مرا خوش خرام ، بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی

مرے سارے حرف تمام حرفِ عذاب تھے
مرے کم سُخن نے سُخن کیا تو خبر ہوئی

کوئی بات بن کے بگڑ گئی تو پتہ چلا
مرے بےوفا نے کرم کیا تو خبر ہوئی

مرے ہمسفر کے سفر کی سمت ہی اور تھی
کہیں راستہ گُم ہوا تو خبر ہوئی

مرے قصہ گو نے کہاں کہاں سے بڑھالی بات
مجھے داستاں کا سرا ملا تو خبر ہوئی

(افتخار عارف)
ہزار بار خود _____ اپنے مکاں پہ دستک دی
اس احتمال میں جیسے کہ میں ہی اندر تھا

شاعر: مشفق خواجہ
ہاتھ دیا اس نے مِرے ہاتھ میں - قتیل شفائی

ہاتھ دیا اس نے مِرے ہاتھ میں
میں تو ولی بن گیا اِک رات میں

عشق کرو گے تو کماؤ گے نام
تُہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں

عشق بُری شے سہی پر دوستو
دخل نہ دو تم مری ہر بات میں

مجھ پہ توجہ ہے سب آفات کی
کوئی کشش تو ہے مری ذات میں

راہنما تھا مرا اِک سامری
کھو گیا میں شہر طلِسمات میں

مجھ کو لگا عام سا اِک آدمی
آیا وہ جب کام کے اوقات میں

شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی
درد مہکنے لگا جذبات میں

ہاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں
گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں

ربط بڑھایا نہ قتیل اس لیے
فرق تھا دونوں کے خیالات میں
" اتنی جلدی نتائج اخذ کرنے سے گریز کیا کرو.. ایک دو یا پھر تین ملاقاتوں میں ھی ھم کسی کے بارے میں حتمی رائے دینے کے قابل نھیں ھو جاتے..

ایسا کرنے میں اکثر ایسا بھی ھوتا ھے کہ کسی شخص کی شخصیت کا کوئی نیا روپ سامنے آنے پر بری طرح مایوس بھی ھو جائیں اور اپنی رائے پر شرمندہ بھی.. "

عنیزہ سید.. " جو رکے تو کوہِ گراں تھے "
ایک عالِم نے ایک بُڑھیا کو چرخہ کاتتے دیکھ کر فرمایا.. " بڑی بی ! ساری عُمر چرخہ ھی کاتا ھے یا کچھ اپنے خدا کی بھی پہچان کی..؟ "

بُڑھیا نے جواب دیا.. " بیٹا مَیں نے تمہاری طرح موٹی موٹی کتابیں تو نہیں پڑھیں مگر سب کچھ اِسی چرخہ میں دیکھ لیا.. "

فرمایا.. " بڑی بی! یہ تو بتاؤ کہ خدا موجود ھے یا نہیں..؟ "

بُڑھیا نے جواب دیا.. " ھاں ! ھر گھڑی اور رات دن ' ھر وقت ایک زبردست خدا موجود ھے.. "

عالِم نے فرمایا.. " مگر اس کی کوئی دلیل بھی ھے تمہارے پاس..؟"

بُڑھیا بولی.. " دلیل ھے یہ میرا چرخہ.. "

عالِم نے پوچھا.. " یہ معمولی سا چرغہ کیسے..؟ "

وہ بولی.. " وہ ایسے کہ جب تک مَیں اس چرخہ کو چلاتی رھتی ھوں یہ برابر چلتا رھتا ھے اور جب مَیں اسے چھوڑ دیتی ھوں تب یہ ٹھہر جاتا ھے..

تو جب اس چھوٹے سے چرخہ کو ھر وقت چلانے والے کی لازماً ضرورت ھے تو اِتنی بڑی کائنات یعنی زمین و آسمان ' چاند ' سورج کے اتنے بڑے چرخوں کو کس طرح چلانے والے کی ضرورت نہ ھو گی..؟

پس جس طرح میرے کاٹھ کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاھیے اسی طرح زمین و آسمان کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاھیے.. جب تک وہ چلاتا رھے گا یہ سب چرخے چلتے رھیں گے اور جب وہ چھوڑ دے گا تو یہ ٹھہر جائیں گے..

مگر ھم نے کبھی زمین و آسمان ' چاند سورج کو ٹھہرے ھوئے نہیں دیکھا تو جان لیا کہ ان کا چلانے والا ھر گھڑی موجود ھے.. "

عالم نے سوال کیا.. " اچھا یہ بتاؤ کہ آسمان و زمین کا چرخہ چلانے والا ایک ھے یا دو..؟ "

بُڑھیا نے جواب دیا.. " ایک ھے اور اس دعویٰ کی دلیل بھی یہی میرا چرخہ ھے کیوں کہ جب اس چرخہ کو مَیں اپنی مرضی سے ایک طرف کو چلاتی ھوں تو یہ چرخہ میری مرضی سے ایک ھی طرف کو چلتا ھے.. اگر کوئی دوسرا چلانے والا ھوتا تب تو چرخہ کی رفتار تیز یا آھستہ ھو جاتی اور اس چرخہ کی رفتار میں فرق آنے سے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ھوتا..

یعنی اگر کوئی دوسرا صریحاً میری مرضی کے خلاف اور میرے چلانے کی مخالف جہت پر چلاتا تو یہ چرخہ چلتے چلتے ٹھہر جاتا مگر ایسا کبھی نہیں ھوا.. اس وجہ سے کہ کوئی دُوسرا چلانا والا ھے ھی نہیں..

اسی طرح آسمان و زمین کا چلانے والا اگر کوئی دُوسرا خدا ھوتا تو ضرور آسمانی چرخہ کی رفتار تیز ھو کر دن رات کے نظام میں فرق آ جاتا یا چلنے سے ٹھہر جاتا یا ٹوٹ جاتا.. جب ایسا نہیں ھے تو پھر ضرور آسمان و زمین کے چرخہ کو چلانے والا ایک ھی خدا ھے..!! "

ماخوذ از " سیرت الصالحین ص:٣ "

Tuesday 18 February 2014

بسْــــــــــــــــــمِ اﷲِالرَّحْمَنِ الرَّحِيم
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
صُبح بخیر زِندگی
●▬▬▬▬▬▬▬▬●ஜ۩۞۩ஜ●▬▬▬▬▬▬▬▬●

ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ہم لو گ پوسٹ کو صر ف لائیک کرتے ہیں لیکن یہ ٹھیک نہیں ۔ ہمیشہ پو سٹ پڑھ کر اس کے بعد اپنی رائے اپنے لفظو ں میں دیں۔ جس سے پو سٹ کر نے والا اور لکھنے یا نہ لکھنے کا فصیلہ کر سکے شکریہ۔

دُعا گو : ● محمد راشد  

Sunday 16 February 2014

بس آپ کے چند منٹ چاہیے ذرا غو ر سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خاتون ســــــے ھوائی اڈــــــے پر جہاز کــــــے انتظار میں وقت ھی نہیں کٹ پا رھا تھا.. کچھ سوچ کر دکان ســــــے جا کر وقت گزاری کیلئــــــے ایک کتاب اور کھانــــــے کیلئــــــے بسکٹ کا ڈبہ خریدا اور واپس انتظار گاہ میں جا کر کتاب پڑھنا شروع کی..

اس عورت کــــــے ساتھ ھی دوسری کرسی پر ایک اور مسافر بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رھا تھا.. ان دونوں کــــــے درمیان میں لگی میز پر رکھــــــے بسکٹ کــــــے ڈبے ســــــے جب خاتون نــــــے بسکٹ اٹھانــــــے کیلئــــــے ہاتھ بڑھایا تو اســــــے یہ دیکھ کر بہت حیرت ھوئی کہ اس ساتھ بیٹھــــــے مسافر نــــــے بھی اس ڈبــــــے ســــــے ایک بسکٹ اٹھا لیا تھا..

خاتون کا غصــــــے کــــــے مارــــــے برا حال ھو رھا تھا.. اس کا بس نہیں چل رھا تھا ورنہ تو وہ اُس کــــــے منہ پر اس بــــــےذوقی اور بــــــےادبی کیلئــــــے تھپڑ تک مارنــــــے کا سوچ رھی تھی..

اس کی حیرت اس وقت دو چند ھوگئی جب اس نــــــے دیکھا کہ جیســــــے ھی وہ ڈبــــــے ســــــے ایک بسکٹ اٹھاتی وہ مسافر بھی ایک بسکٹ اٹھا لیتا.. غصــــــے ســــــے بــــــےحال وہ اپنی جھنجھلاھٹ پر بمشکل قابو رکھ پا رھی تھی..

جب ڈبــــــے میں آخری بسکٹ آن بچا تو اب اس کــــــے دل میں یہ بات جاننــــــے کی شدید حسرت تھی کہ اب یہ بدتمیز اور بداخلاق شخص کیا کرــــــے گا..

کیا وہ اب بھی اس آخری بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائــــــے گا یا یہ آخری بسکٹ اس کیلئــــــے رکھ چھوڑــــــے گا..؟

تاہم اس کی حیرت اپنــــــے عروج پر جا پہنچی جب مسافر نــــــے اس آخری بسکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرکــــــے آدھا خود اٹھا لیا اور آدھا اس کیلئــــــے چھوڑ دیا تھا..

خاتون کیلئــــــے اس ســــــے بڑھ کر اھانت کی گنجائش نہیں رھی تھی.. آدھــــــے بسکٹ کو وھیں ڈبــــــے میں چھوڑ کر ' کتاب کو بند کرتــــــے ھوئــــــے ' اٹھ کر غصــــــے ســــــے پاؤں پٹختی امیگریشن ســــــے ھوتی ھوئی جہاز کی طرف چل پڑی..

جہاز میں کرسی پر بیٹھ کر اپنــــــے دستی تھیلــــــے میں ســــــے عینک نکالنــــــے کیلئــــــے کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت ســــــے اس کی جان ھی نکل گئی کہ اس کا خریدا ھوا بسکٹ کا ڈبہ تو جوں کا توں تھیلــــــے میں بند رکھا ھوا تھا..

ندامت اور شرمندگی ســــــے اس کا برا حال ھو رھا تھا.. اســــــے اب پتہ چل رھا تھا کہ وہ ھوائی اڈــــــے پر بسکٹ اس شخص کــــــے ڈبــــــے ســــــے نکال کر کھاتی رھی تھی..

اب دیر ســــــے اســــــے محسوس ھو رھا تھا کہ وہ شخص کس قدر ایک مہذب اور رحمدل انسان تھا جس نــــــے کسی شکوــــــے اور ھچکچاھٹ کــــــے بغیر اپنــــــے ڈبــــــے ســــــے اســــــے بسکٹ کھانــــــے کو دیئــــــے تھــــــے.. وہ جس قدر اس موضوع پر سوچتی اسی قدر شرمندگی اور خجالت بڑھتی جا رھی تھی..

اس شرمندگی اور خجالت کا اب مداوا کیا ھو سکتا تھا.. اس کــــــے پاس تو اتنا وقت نہ تھا کہ جا کر اس آدمی کو ڈھونڈھــــــے ' اس ســــــے معذرت کرــــــے ' اپنی بــــــےذوقی اور بــــــےادبی کی معافی مانگــــــے یا اس کی اعلٰی قدری کا شکریہ ادا کرــــــے..

اسی لیــــــے کہتــــــے ھیں کہ کسی کــــــے بارــــــے میں رائــــــے قائم کرنــــــے میں جلدی نہیں کرنی چاھیــــــے کیونکہ ضروری نہیں کہ آپ کی قائم کی ھوئی رائــــــے ھی ٹھیک ھو..!!
میں لوٹ آتا تیری سمت ایک لمحے میں...
تیرے لبوں نے میرا نام تو لیا ہوتا..


TuM MoHaBBaT KhaReeD Laaye Ho ..

GhaR MeiN PehLay AzaaB KeM Tha !!!!



khush mezaji bhi mash,hoor thi humari sadgi bhi kamaal thi

khush mezaji bhi mash,hoor thi humari sadgi bhi kamaal thi

hum shraarti bhi inteha k thay , ab sanjeeda bhi be-misaal 


hain —


Ufff!! Kuch aor bhi Jazbon ko Be-Taab kia us ne

Ufff!! Kuch aor bhi Jazbon ko Be-Taab kia us ne....


Jab Mehandi vale Haathon say Aadaab kia us ne....


ﺍﭼﮭﺎ ﮬﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟُﮍﯼ ﮬﮯ
ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻃﻠﺐ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟُﮍﯼ ﮬﮯ

ﺑﺎﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﺷﮧ ﮬﮯ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ
ﮬﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﺟﻮ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟُﮍﯼ ﮬﮯ

ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺩُﻧﯿﺎ ﭘﮧ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
ﻣﭩﯽ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﮔﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟُﮍﯼ ﮬﮯ

ﯾﮧ ﮐﺸﺘﯿﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﻮ ﯾﻮﻥ ﮨﯽ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﮨﯿﮟ
ﺩﺭﯾﺎ ﮐﯽ ﺗﻮ ﮬﺮ ﻣﻮﺝ ﮐِﻨﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟُﮍﯼ ﮬﮯ

ﮬﺮ ﺩﻥ ﮐﺴﯽ ﺳُﻮﺭﺝ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﻗُﺐ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﮔﻮﮬﺮ
.. .. ﮬﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟُﮍﯼ ﮬﮯ


Saturday 15 February 2014


درد کی چوکھٹ پر بیٹھی لڑکی
دیکھو کیسی پگلی لڑکی
سوچ کی تانیں بن رہی ہے

روگ پرانے گن رہی ہے
آس کی ڈور کو تھام چلی ہے
دیکھو پگلی کس گام چلی ہے
چھو کر کانٹے مچل رہی ہے
ریت کو روح پر مل رہی ہے
خواب نئے ہیں روگ پرانے
درد کے سارے سوگ پرانے
اس سے بولو روک بھی دو نا
کوئی اس کو ٹوک بھی دونا
جس راہ چلی ہے گھات بہت ہے
دکھ کی پہلی رات بہت ہے
رات کا دامن تھام نہ لو تم
خود سے یہ انتقام نہ لو تم
اچھی ہو تم سچی لڑکی
لیکن کچھ کچھ پگلی لڑکی.....!


دوستی کے رشتوں کی پرورش ضروری ھے سلسلے تعلق کے خُود سے بن تو جاتے ھیں لیکن اِن شگوفوں کو ٹُوٹنے بکھرنے سے روکنا بھی پڑتا ھے!
چاھتوں کی مٹی کو ، آرزو کے پودوں کو سینچنا بھی پڑتا ھے! رنجشوں کی باتوں کو بھُولنا بھی پڑتا ھے۔


ﺗﯿﺮﮮ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﮐﮯ ﺑﮍﯼ ﺍﻟﺠﮭﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ

ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ


ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﭘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻝ

ﻣﯿﮟ ﺳﻨﮓِ ﺭﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﺒﮭﯽ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ

ﺍﮮ ﯾﺎﺭِ ﺧﻮﺵ ﺩﯾﺎﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ

ﮐﺐ ﺳﮯ ﺍﺩﺍﺳﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﻨﮯ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ

ﺗﻮ ﻟُﻮﭦ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﮨﻞِ ﺗﻤﻨﺎ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ

ﻣﯿﮟ ﻟُﭧ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ

ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍ ﮐﺮ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﺋﮯ ﮔﺎ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ

ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﻟﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ

ﺑﺪﻻ ﻧﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﮔﻔﺘﮕﻮ

ﻣﯿﮟ ﺟﺎ چکی ﮨﻮﮞ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﻔﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ


درد کی چوکھٹ پر بیٹھی لڑکی
دیکھو کیسی پگلی لڑکی
سوچ کی تانیں بن رہی ہے
روگ پرانے گن رہی ہے
آس کی ڈور کو تھام چلی ہے
دیکھو پگلی کس گام چلی ہے
چھو کر کانٹے مچل رہی ہے
ریت کو روح پر مل رہی ہے
خواب نئے ہیں روگ پرانے
درد کے سارے سوگ پرانے
اس سے بولو روک بھی دو نا
کوئی اس کو ٹوک بھی دونا
جس راہ چلی ہے گھات بہت ہے
دکھ کی پہلی رات بہت ہے
رات کا دامن تھام نہ لو تم
خود سے یہ انتقام نہ لو تم
اچھی ہو تم سچی لڑکی
لیکن کچھ کچھ پگلی لڑکی.....!


تمھا ری با ت لمبی ہے د للییں ہیں بہا نے ہیں


بے سبب تھا تیرا ملنا ہم سے
حادثے پہلے کچھ کم نہیں تھے


دل نے دیکھی ھے تری زلف کے سر ہونے تک
وہ جو قطر ے پہ گزرتی ھے، گہر ہونے تک

بھیڑ لگ جائےگی شیریں کی گلی میں فرہاد
لوگ بے بس ہیں تر ے شہر بدر ہونے تک

زہر پی لیتا ہُوں، گر شہد بھر ے ہونٹ تر ے
میر ے قبضے میں رہیں اس کا اثر ہونے تک

بعد اس کے کوئی تقریب نہیں ھے غم کی
آج تم پاس رہو میر ے، سحر ہونے تک

ہم تمھیں اپنی خبر دیں بھی تو کیا سوچ کے دیں
ہم کو رہنا ہی نہیں تم کو خبر ہونے تک

میرا شیرازہِ ہستی نہ بکھر جائے عدم
اُس پری زاد کو توفیقِ نظر ہونے تک


میں تو فنا ہو گیا نقاب میں اس کی آنکھیں دیکھ کر...!! نہ جانے وہ شخص روز آئینہ کیسے دیکھتا ہوگا...!!


اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
صبح بخیرزندگی۔۔۔۔۔۔خوش رہیں خوشیاں تقسیم کریں۔

عمدہ ترین کلام وہ ہے جو الفاظ کے اعتبار سے توکم ہو مگر معنٰی کی اعتبار سے زیادہ ہو ۔
دسو فرحت جی اسیں کی کرئیے
ساڈا کوئی نہ لاوے مل
اسیں نازاں پلے ما پیاں دے
اج گئے وٹیاں وچ رل

کئی چنگے بھیڑے رل مل کے
سانوں رج کے پھیرن جھل
انج ہاسے ساڈے ہونٹاں تے
جیویں قبراں اتے پھل
انج ہنجو ساڈی اکھیاں وچ
جیویں موگھے جاونڑ کھل

دسو فرحت جی اسیں کی کرئیے
ساڈے شہر اچ کالی رات
ساڈے رشتے ناطے بھیڑیاں نل
ساڈی ٹھگاں نل گل بات
ساڈے سر تے چھباں گٹکاں دا
ہتھہ چھلڑاں بھری پرات
ساڈے کپڑے آ آ سب ویکھنڑ
ساڈی کوئی نہ پچھے ذات
سانوں ڈر گلیاں وچ سد مارن
سانوں خدشے پاونڑ جھات

دسو فرحت جی اسیں کی کرئیے
سانو امن نہ چین قرار
کوئی بھانبڑ بلداے ہر راتیں
ساڈے سینے دے وچکار
سانو رستے کھاونڑ آمدے ہن
ساڈا ساہ گھٹدہ اے گھر بار
ہک پیڑ اجہی چپ کیتی
کرے لہو دے وچ سرکار
ہک یاد اساڈے دل دے وچ
جیویں دو دھاری تلوار

دسو فرحت جی اسیں کی کرئیے ؟؟

( فرحت عباس شاہ )
سگریٹ نوشی کے دوران صرف 15فیصد دھواں سگریٹ نوش کے پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے باقی 85فیصد دھواں ماحول میں پھیل جاتا ہے اور دوسرے لوگوں خاص طور پر بچوں کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ اسے Passive Smoking بھی کہتے ہیں ۔
)2( بیشک سگریٹ نوشی جاری رکھنا یا چھوڑ دینا سگریٹ نوش کا حق ہے مگر سگریٹ جلانے سے پہلے خود اپنے اوپر اور اس سے دوسرے لوگوں پر پڑنے والے مضر اثرات کے بارے میں ضرور سوچ لیجئے ۔ آپ کی وجہ سے جو نقصان دوسروں کو ہوتا ہے وہ ایک گناہ ہے ۔
)3( ہر سگریٹ آپ کی زندگی سے گیارہ منٹ چھین لیتی ہے ۔
)4( دل کے دورے ،کینسر ، ذہنی تناؤاور بلڈپریشر جیسی بیماریوں سے اگر آپ بچنا چاہتے ہیں اور ایک صحت مند زندگی اور سکون واطمینان کی زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو سگریٹ فوراً ترک کرکے صحت سے ہاتھ ملائیں ۔


Sunday 9 February 2014

جب میں ڈوبا تو


میرا چہرا میرے حالات کا اآئینہ ہے


اولاد کے لیے گھر میں کچھ لائو


ایک ما ہر ڈاکٹر نے کہا


پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ہر درد کی دوا


وہ اور مجھے یاد کرتے ہیں


با پ کی ڈانٹ ڈپت


لڑکیوں کی فوٹو لگا نے والوں کے نا م



کوئی کـندھا ہـو مُیسـر ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تو سـاتھ دے مــیرا
مُجھے ٹوٹـے ہُـوئـے اِکــــ خُواب کی ۔۔۔۔۔۔۔ تدفین کرنی ہـے۔



تیرا رستہ تکتے رہنے کی عادت سے تنگ آ کر
دروازے پہ رکھ آئی ہوں میں اپنی پاگل آنکھیں




کبھی رات بھر تجھے سوچنا کبھی رات بھر تجھے ڈھونڈنا،

مجھے جا بجا تیری جستجو تجھے ڈھونڈتا ہوں میں کوبہ کو،
کہاں کھُل سکا تیرے روبرو میرا اس قدر تجھے ڈھونڈنا،

میرا خواب تھا کہ خیال تھا وہ عروج تھا یا زوال تھا،
کبھی عرش پر تجھے ڈھونڈنا کبھی فرش پر تجھے ڈھونڈنا،

یہاں ہر کسی سے ہی بیر ہے تیرا شہر قرئیہ غیر ہے،
یہاں سہل بھی تو نہیں کوئی میرے بےخبر تجھے ڈھونڈنا،

تیری یاد آئی تو رودیا تو جو مل دیا تجھے کھو دیا،
میرے سلسلے بھی عجیب ہیں تجھے چھوڑ کر تجھے ڈھونڈنا،

یہ میری نظر کا کمال ہے کہ تیری نظر کا جمال ہے،
تجھے شعر شعر میں سوچنا سرِ بام و در تجھے ڈھونڈنا...


اتنا ہی رکھ یاد مجھے
جیسے کسی کتاب میں
بیتے دنوں کے دوست کا
اک خط پڑا ہوا ملے
لفظ مٹے مٹے سہی
رنگ اڑا اڑا سا ہو
لیکن وہ اجنبی نہ ہو
اٹھ کر تیرے گلے لگے
بیتے دنوں کی سب کتھا
بھولے ہوئے تمام سکھ
گزرے ہوئے تمام دکھ
تجھ سے کہے اور رو پڑے



لگ گئی اور کھیں عمر کی پونجی
ورنا!!
زندگی ھم تیری دھلیز پے ھارے ھوتے



Saturday 8 February 2014

اولاد کے لیے


سنا ہے کوئلے کی کان سے


تجوریاں بھرتے ہیںلوگ


دوپبر تک بک گیا


hadees



تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا

یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرا نہیں ملتا

زمانے کو قرینے سے وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے
مگر میرے لیے اس کو کوئی لمحہ نہیں ملتا

مسافت میں دعائے ابر ان کا ساتھ دیتی ہے
جنہیں صحرا کے دامن میں کوئی دریا نہیں ملتا
ٕ
جہاں ظلمت رگوں میں اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے
اُسی تاریک رستے پر دیا جلتا نہیں ملت