Pages

Friday 25 April 2014


ایک روز ابن سماک ہارون الرشید کے پاس بیٹھے تھے-ہارون الرشید کو پیاس لگی، اس نے پانی منگایا۔
پانی آیا، ہارون الرشید نے پانی پینا چاہا، ابن سماک نے کہا، ذراٹھریے۔ ہارون الرشید ٹھر گیا۔
ابن سماک نے کہا، اگر شدتِ پیاس کے وقت آپ کو پانی نہ ملے تو پیالہ کتنے کا خریدیں گے ؟
ہارون الرشید نے کہا ضرورت پڑی تو آدھی حکومت دے دوں گا۔
ابن سماک نے کہا اب پی لیجۓ- جب ہارون پانی پی چُکا تو ابن سماک نے کہا، اگر یہ پانی پیٹ کے اندر رہ جاۓ اور باہر نہ نکلے تو اس کے نکلوانے میں آپ کتنا خرچ کر سکتے ہیں؟
ہارون نے کہا ضرورت پڑے تو آدھی سلطنت دے ڈالوں گا۔
تو ابن سماک نے کہا بس آپ سمجھ لیجۓ کہ آپ کا تمام ملک ایک پیالہ پانی اور پشاب کی قیمت رکھتا ہے- آپ کو اس پر زیادہ غرور نہ ہونا چاہیے۔
ہارون الرشید یہ سن کر رو پڑا اور دیر تک روتا رہا۔
ہم اللہ تعالیٰ کی کروڑوں کھربوں نعمتوں سے فيضياب ہوتے ہيں، لیکن افسوس ہم میں سے اکثریت کے نہ تو عمل سے شکر ظاہر ہوتا ہے اور نہ ہی زبان حال سے شکر ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے، بس یہی سمجھتے ہیں جیسے یہ تمام نعمتیں عطائی نہیں بلکہ ذاتی ہیں۔ شکر ادا کرنے سےفائدہ انسان کا ہی ہوتا ہے ۔

اللہ تعالی ہميں اپنا شکر ادا کرنے کی توفيق دے۔ آمين۔


Wednesday 23 April 2014

ہو سکتا ہے مندرجہ ذیل قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نا ہو، مگر اس سے حاصل ہونے والے فائدے کیلئے اسے آخر تک پڑھ لیجیئے۔
ایک شخص نے بہتر گھر خریدنے کیلئے اپنا پہلے والا گھر بیچنا چاہا۔
اس مقصد کیلئے وہ اپنے ایک ایسے دوست کے پاس گیا جو جائیداد کی خرید و فروخت میں اچھی شہرت رکھتا تھا۔
اس شخص نے اپنے دوست کو مُدعا سنانے کے بعد کہا کہ وہ اس کے لئے گھر برائے فروخت کا ایک اشتہار لکھ دے۔
اس کا دوست اِس گھر کو بہت ہی اچھی طرح سے جانتا تھا۔ اشتہار کی تحریر میں اُس نے گھر کے محل وقوع، رقبے، ڈیزائن، تعمیراتی مواد، باغیچے، سوئمنگ پول سمیت ہر خوبی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔
تحریر مکمل ہونے پر اُس نے اپنے دوست کو یہ اشتہار پڑھ کر سُنایا تاکہ اُسکی رائے لے سکے۔
اشتہار کی تحریر سُن کر اُس شخص نے کہا، برائے مہربانی اس اعلان کو ذرا دوبارہ پڑھنا۔ اور اُس کے دوست نے اشتہار دوبارہ پڑھ کر سُنا دیا۔
اشتہار کی تحریر کو دوبارہ سُن کو یہ شخص تقریباً چیخ ہی پڑا کہ کیا میں ایسے شاندار گھر میں رہتا ہوں؟
اور میں ساری زندگی ایک ایسے گھر کے خواب دیکھتا رہا جس میں کچھ ایسی ہی خوبیاں ہوں۔ مگر یہ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ میں تو رہ ہی ایسے گھر میں رہا ہوں جس کی ایسی خوبیاں تم بیان کر رہے ہو۔ مہربانی کر کے اس اشتہار کو ضائع کر دو، میرا گھر بکاؤ ہی نہیں ہے۔
*****
ایک منٹ ٹھہریئے، میرا مضمون ابھی پورا نہیں ہوا۔
ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نعمتیں تمہیں دی ہیں ان کو ایک کاغذ پر لکھنا شروع کر دو، یقیناً اس لکھائی کے بعد تمہاری زندگی اور زیادہ خوش و خرم ہو جائے گی۔
اصل میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہی بھلائے بیٹھے ہیں کیوں کہ جو کچھ برکتیں اور نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں ہم اُن کو گننا ہی نہیں چاہتے۔
ہم تو صرف اپنی گنی چنی چند پریشانیاں یا کمی اور کوتاہیاں دیکھتے ہیں اور برکتوں اور نعمتوں کو بھول جاتے ہیں۔
کسی نے کہا: ہم شکوہ کرتے ہیں کہ اللہ نے پھولوں کے نیچے کانٹے لگا دیئے ہیں۔ ہونا یوں چاہیئے تھا کہ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اُس نے کانٹوں کے اوپر بھی پھول اُگا دیئے ہیں۔
ایک اور نے کہا: میں اپنے ننگے پیروں کو دیکھ کر کُڑھتا رہا، پھر ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں ہی نہیں تھے تو شکر کے ساتھ اللہ کے سامنے سجدے میں گر گیا۔
اب آپ سے سوال: کتنے ایسے لوگ ہیں جو آپ جیسا گھر، گاڑی، ٹیلیفون، تعلیمی سند، نوکری وغیرہ، وغیرہ، وغیرہ کی خواہش کرتے ہیں؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جب آپ اپنی گاڑی پر سوار جا رہے ہوتے ہو تو وہ سڑک پر ننگے پاؤں یا پیدل جا رہے ہوتے ہیں؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ہوتی جب آپ اپنے گھر میں محفوظ آرام سے سو رہے ہوتے ہیں؟
کتنے ایسے لوگ ہیں جو علم حاصل کرنا چاہتے تھے اور نہ کر سکے اور تمہارے پاس تعلیم کی سند موجود ہے؟
کتنے بے روزگار شخص ہیں جو فاقہ کشی کرتے ہیں اور آپ کے پاس ملازمت اور منصب موجود ہے؟
اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ ہزاروں باتیں لکھی اور کہی جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔
کیا خیال ہے ابھی بھی اللہ کی نعمتوں کے اعتراف اور اُنکا شکر ادا کرنے کا وقت نہیں آیا ؟

Monday 21 April 2014

علامہ اقبالؒ ڈے کی مناسبت سے ایک فکر انگیز تحریر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میرے شاھین تو ایسے نہ تھے..!!
گلی کے اس کونے پر ایک نوجوان دیوار سے ٹیک لگائے کھٹرا ھے.. دونوں ٹانگیں ایک دوسرے میں اڑائی پھنسائی ھوئی ھیں اور نجانے کتنی محنت مشقت سے پاوں ایسے ھلا رھا ھے جیسے قربانی کے بکرے کی جاں کنی کے وقت اُس کے پائے ھلتے ھیں.. دونوں ہاتھ موبائل پر تیزی سے چلتے ھیں اور اس سے کہیں زیادہ تیزی سے چہرے پر مسکراھٹ چلتی ھے جیسے لاکھوں کا انعام نکلا ھو یا خالی چھوڑ کر آنے والے پرچےمیں پاس ھوگیا ھو..
سر یوں ادھر اُدھر کر رھا ھے جیسے گردن درد کی وجہ سے بیمار بندہ گردن کو ادھر ادھر کرتا پھرے پر کہیں چین نہ پڑے.. کانوں میں لگی موبائل ھینڈز فری کا کمال ھے شائد.. ایک آدھی نظر آتے جاتے لوگوں کہ طرف بھی وا کرلیتا ھے اور پھر اُسی شانِ بے نیازی سے دوبارہ گردن کو جھٹکا دے کر اپنی دھن میں مگن ھو جاتا ھے..
ایک.. دو.. تین.. اور بے شمار گلیوں کے کونے ایسے مناظر سے پُر نظر آرھے ھیں.. کہیں پر اکیلا نمونہ تو کہیں دو ' تین ' چار یار اکھٹے ایسے مشاغل کرتے مل رھے ھیں..
ھمارے اپنے "شاہین بچے" نہ تو حُلیے سے کہیں شاھین نظر آرھے ھیں اور نہ اپنی حرکتوں سے..
" اوئے اوئے دھوم 3 لگ گئی فلان سینما میں.. کمال فلم ھوگی دیکھنا تم.. فلان ٹی وی چینل پر بڑے دن اس کی تشہیر ھوتی رھی ھے.. میں کہتا ھوں ایکشن سٹنٹ دیکھنے تھے کیا کمال تھے.. بتاو کس دن کا پروگرام ھے پھر..؟ اور ھاں ! واپسی پر شیشیہ بھی سموک کرنا ھے.. "
ایک "شاھین بچہ" روانی سے بولے جا رھا تھا.. کانوں میں اُس کے بھی ھینڈز فری ٹھُنسی ھوئی تھی.. باقی سب نے اپنے مفید مشورے شامل کردئے اور فلم کا پروگرام طے پاگیا ھے.. اذان ھو رھی ھے.. ادب میں خاموش ھو گئے سب اور پھر اُسی خاموشی سے مسجد کی طرف جاتے نمازیوں کو دیکھ رھے ھیں.. اب خود بھی خاموشی سے جا رھے ھیں..
اپنے اپنے گھر..!!
اسکول ' کالج ' یونیورسٹی کی کینٹین پر کرسیاں جوڑے بیٹھے ھیں.. آتی جاتی لڑکیوں کو دیکھ کر سگریٹ کے کش مزید گہرے کرتے ھیں.. پھر دھواں یوں نکالتے ھیں منہ سے جیسے پریشر ککر کی سیٹی اتارنے کے بعد بھاپ نکلتی ھے.. ھوٹنگ کرتے ھیں تو خواجہ سراوں کو پیچے چھوڑے جاتے ھیں..
کمال کے شاھین بچے.. ھمارے اپنے شاھین بچے..!!
پاپا سٹار پلس لگا دو جلدی سے ' اپنا نیشنل جیوگرافک بعد میں دیکھ لینا.. مما ! پاپا سے کہیں ناں.. میرا فلان ڈرامہ نکلے جاتا ھے..
اچھا بیٹا ! لو لگا دیا.. سارے گھر والے مل کر دیکھیں گے اب.. شاھین بچوں کے گھر والے..!!
توبہ توبہ سلیم صاحب ! کبھی دیکھا ھے آپ نے.. کیسے کیسے فحش ڈرامے آتے ھیں انڈین چینلز پر.. ھماری ساری فیملی تو پاکستانی ڈرامے دیکھتی ھے..
کھلے گریبانوں ' بنا ڈوپٹوں والے ھمارے اپنے ڈرامے.. پاکستانی ڈرامے..!!
یہ ھیں شاہین بچوں کے ابو جو اپنے دوست سے گفتگو کر رھے ھیں..!!
موٹر سائیکل ایک پہئے پر چل رھی ھے بلکہ یہ تو اُڑ رھی ھے.. کچھ شاھین بچے فلمی سٹنٹ پوری محنت اور طاقت سے کر رھے ھیں کہ کون ایک دوسرے پر سبقت لے جائے گا.. اُڑتے ھوئے شاھین بچے..!!
"اقبال".. آنکھوں میں آنسو لیے دور کھڑے یہ دیکھ رھے ھیں.. اور بڑے دُکھ سے کہتے جارھے ھیں..
میرے شاھین تو ایسے نہ تھے.. میرے شاھین تو ایسے نہ تھے..!!
خُدا کی تلاش
---------------
مجھے وہ واقعہ یاد آیا جب میں ایک درویش کی کُٹیا میں اُس سے پوچھ رہا تھا کہ بابا خُدا کو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے کیونکہ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے پہلے لوگ اپنی آدھی سے زیادہ زندگی اللہ عزوجل کو پانے کیلئے دُنیا سے کٹ جاتے تھے جنگل نشین ہوجایا کرتے تھے خود پر دُنیا کی نعمتوں کے دروازے بند کرلیا کرتے تھے۔
اے اِبن آدم ایک تیری چاہت ہے اور اِک میری چاہت ہے اگر تو چَلا اُس پر جو میری چاہت ہے تو میں تُجھے دُونگا وہ بھی جو تیری چاہت ہے اور اگر چَلا اُس پر جو تیری چاہت ہے تو تجھے تَھکا دونگا اُس میں جو تیری چاہت ہے پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔
درویش یہ سُن کر فرمانے لگے بِیٹا وہ کیا چیز ہے جو واقعی صرف تمہاری ہے؟
میں نے عرض کی حضور سب کچھ اللہ کریم کی امانت ہے میرا تو کُچھ بھی نہیں یہ جان، یہ صحت، یہ مال، یہ عزت، سبھی پہ اللہ کا اختیار ہے میرا تو کچھ بھی نہیں۔
وہ مُسکراتے ہوئے فرمانے لگے نہیں بیٹا تم نے جو کچھ کہا ٹھیک ہے مگر ایک چیز ہے جو صرف تُمہارے اختیار میں ہے وہی قیمتی متاع ہے انسان کے پاس جس کی قربانی اللہُ سُبحانہُ تعالیٰ کو بےحد پسند ہے۔
میں عقل کے گھوڑے دوڑاتا رہا تمام باتوں کو بار بار دماغ میں دُہراتا رہا لیکن کچھ پلے نہیں پڑا بڑے ادب سے اُس درویش کے قدموں کو دباتے ہوئے عرض کرنے لگا بابا میں بُہت کم فہم ہوں ان کتابوں کو میں پڑھ تو لیتا ہوں لیکن شائد سمجھنے سے قاصر ہوں آپ ہی بتا دیجئے نا کہ آخر وہ ایسی کیا چیز ہے جسکی مجھے خبر نہیں اور اُسکی قربانی اللہ کریم کو بے حد پسند ہے-
اُس درویش نے اپنے قدموں کو سمیٹا اور چار زانوں بیٹھ گئے میری جانب بڑے غور سے دیکھا اور ایک جذب کی کیفیت میں فرمانے لگے بیٹا جانتے ہو انسان اشرف المخلوقات کیوں ہے؟
میں نے ادب سے عرض کی حضور آپ ہی ارشاد فرمائیں تب وہ درویش فرمانے لگے بیٹا اس لئے کہ اللہ کریم نے انسان کو عقل دی پرکھنے کیلئے، شعور دیا خیر اور شر کو سمجھنے کیلئے، پھر اپنا آئین دیا جس سے وہ اللہ کریم کی رضا اور ناراضگی کو جان سکے
لیکن اس انسان کو اللہ کریم نے پابند نہیں کیا بلکہ اِس انسان کو اختیار دیا کہ چاہے تو دُنیا کی زندگی میں خیر کا رستہ اپنائے چاہے تو شر کے راستے پر چلے، چاہے تو آخرت کی تیاری میں مشغول رہے چاہے تو دُنیا کی رنگینیوں میں خود کو گُما لے۔
بیٹا یہی اختیار، یہی چاہت، یہی خواہش انسان کی سب سے بڑی متاع ہے۔ تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ اللہ کریم کو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے ؟ تو بس اپنی یہی چاہت، اپنا اختیار، اپنی خواہش کو اللہ کریم کے سپرد کردے تجھے خُدا مل جائے گا،
تُجھے کبھی جنگلوں کا رُخ نہیں کرنا پڑے گا تُجھے کبھی صحراؤں کی خاک نہیں چھاننی پڑے گی تجھے خُدا کو ڈھونڈنے کیلئے پہاڑوں پر بھی جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ وہ تو تیری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ جب تو خدا کو پالے تو تیرے اندر کی تپش اسقدر بڑھ جائے کہ تجھے انسانوں کی بھیڑ سے ڈر لگنے لگے یا تجھے لگے کہ تیرے وجود کی آتش اس بھیڑ سے سرد پڑنے لگی ہے تب جنگل، پہاڑ ، دریا سبھی تیرے منتظر ہونگے تو جہاں بھی ہوگا خدا سے بات کرلے گا-
بیٹا یہ آسان رستہ نہیں بلکہ بُہت کٹھن راہ ہے اس راہ پہ چلنا ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں، اس راہ پہ چلنے والوں کو اپنے نفس سے لڑنا پڑتا ہے اپنے من سے لڑنا پڑتا ہے،
اپنی چاہت کو قربان کرنا بَچّوں کا کھیل نہیں پہلے سوچ لے تجھے اپنی ذات کے بُت کو مسمار کرنا پڑے گا، انا کے جام کو بہانا ہوگا، گالی بکنے والے سے خندہ پیشانی سے مِلنا پڑے گا،
تُہمت لگانے والے سے ہنس کر ملنا پڑے گا، مارنے والے کے سامنے دوسرا گال پیش کرنا پڑے گا، 
نرم بستر کو طلاق دینی پڑے گی، طرح طرح کے پکوانوں سے نظر موڑ کر سوکھی روٹی پر قناعت کی عادت ڈالنی ہوگی۔
انسانوں سے مُحبت کرنی ہوگی صرف مُحبت۔ اپنے وجود میں موجود نفرت، غصے، حسد کے آتش کدے پر ندامت کا پانی ڈالنا ہوگا

دو آدمی ایک قریشی خاتون کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کے پاس 100 دینا بطور امانت رکھ کر کہا: 
"جب تک ہم دونوں اکھٹے ہو کر اپنا مال طلب نہ کریں، تب تک آپ یہ امانت واپس نہیں کریں گی- ہم دونوں کی موجودگی امانت واپس کرتے وقت ضروری ہے-"
اس عورت نے ان کی امانت رکھ لی اور اس پر ایک سال کا وقفہ گزر گیا۔ ایک سال کے بعد ان دونوں میں سے ایک شخص اس خاتون کے پاس آیا اور کہنے لگا :
"میرے ساتھی کا انتقال ہو گیا ہے، اس لیے جو 100 دینار ہم نے تمہارے پاس امانت رکھے ہیں، مجھے دے دو۔"
خاتون نے امانت حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگی:
"تم دونوں ساتھیوں نے میرے امانت رکھتے ہوئے یہ شرط رکھی تھی کہ میں تم میں سے ایک کی غیر موجودگی میں مال دوسرے کے حوالے نہ کروں، اس لیے میں امانت تیرے سپرد نہیں کر سکتی۔"
اس آدمی نے خاتون کے اہلِ خانہ اور پڑوسیوں سے مدد طلب کی۔ اُن لوگوں نے اس خاتون سے سفارش کی کہ اس کو امانت دے دو کیونکہ اس کے ساتھی کا انتقال ہوگیا ہے۔
لوگوں کےبےحد اصرار اور سفارش پر اس عورت نے امانت اس شخص کو دے دی۔
ادھر اس بات کو ایک سال اور گزر گیا تو دوسرا شخص، جس کو اس کے دوست نے مرا ہوا ظاہر کیا تھا، اس عورت کے پاس آیا اور آ کر امانت طلب کی۔
خاتون نے بتایا: "تمہارا دوسرا ساتھی آیا تھا اور اس نے بتایا کہ تمہاری وفات ہوچکی ہے، اس لیے میں نے امانت اس کےحوالے کر دی۔"
وہ شخص اس عورت سے جھگڑنے لگا اور کہا: "میں تو زندہ سلامت ہوں۔ میری امانت واپس کرو۔"
عورت نے کہا: "میں تو رقم تمہارے ساتھی کو دے چکی ہوں۔"
اب اس آدمی نے عورت کے خلاف مقدمہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کر دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دونوں کا مقدمہ سنا اور چاہا کہ اس کا فیصلہ اس آدمی کے حق میں کر دیں۔
اچانک انہوں نے کچھ سوچا اور پھر فرمایا:
"اس مقدمہ کو ہم علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے سپرد کرتے ہیں، اور ایک روایت کے مطابق خود دونوں کو لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔"
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں کے بیانات سنے اور معاملہ کو بھانپ گئے کہ اس عورت کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، چنانچہ اس آدمی سے فرمایا:
"کیا تم نے اس خاتون سے یہ شرط نہیں رکھی تھی کہ مال ایک کی غیر موجودگی میں دوسرے کے حوالے مت کرنا؟"
اس آدمی نے جواب دیا: "ہاں یہ شرط تو رکھی گئی تھی۔"
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"تمہارا مال ہمارے پاس موجود ہے، اپنے ساتھی کو بلا لاؤ، تاکہ میں تم دونوں کا مال تمہارے سپرد کر دوں۔"
یہ بات سن کر وہ آدمی اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور خاموشی سے واپس چلا گیا۔
(کتاب الاذکاء، ابن جوزی رحمہ اللہ)
نمازِ فجر کے بعد میں جب اپنے بستر پر لیٹا ہوتا تو میری والدہ مجھ پر پھونکتیں اور چلی جاتیں۔
بچپن سے جب سے میں نے ہوش سنبھالا شاید ہی کوئی دن ہو کہ جس دن وہ نہ آئی ہوں۔ اب جب میں یہ سمجھتا تھا کہ میں بہت باشعور ہو چکا ہوں اور مجھے اس بارے میں والدہ سے دریافت کرنا چاہیے کہ اس پھونک میں کیا خاص ہے کہ انہوں نے اسے اپنا معمول بنا لیا؟ اس پھونک کے بارے دریافت کرنے کی ایک اور وجہ تھی کہ میں جانتا تھا کہ میری والدہ پڑھی لکھی نہیں، قرآن کی تلاوت تو بلاناغہ کرتیں لیکن صرف بسم اللہ سے ہی۔ نماز یاد تھی ان کو لیکن اس کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا۔
میں نے ایک دن اُن سے پوچھا کہ ’ماں جی !جہاں تک میں جانتا ہوں آپ کو قرآن مجید تو آتا نہیں، پھر اس پھونک میں کیا حکمت ہے؟‘
جواب میں والدہ نے کہا۔ ’بیٹا !مجھے پتہ ہے کہ تم بڑے ہو گئے ہو۔ تم میں عقل اور شعور پہلے سے زیادہ ہے، لیکن تم کیا جانو کہ ماں کے دل میں کیا ہے اور ایک ماں اپنی اولاد کے لیے کیا سوچتی ہے؟‘
جب بھی والدہ سے میں نے یہ سوال پوچھا تو ایک یہی جواب ملا، اس لئے میں نے یہ سوال دہرانا ہی چھوڑ دیا۔ لیکن والدہ نے معمول کے مطابق پھونک کو جاری رکھا۔
وقت اسی طرح گزرتا چلا گیا، والدہ کا معمول جاری رہا۔ میں زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہوتا چلا گیا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی نوکری کرنے لگا اور آخر کار ایم ایس سی کر لی۔ لیکن والدہ کا وہی معمول اب بھی جاری تھا۔ اب میں ایک کمپنی میں اعلٰی عہدے پر فائز تھا۔ گھر کے معاشی حالات سدھرنے لگے۔ اب ہر وہ آسائش میسر آنے لگی کہ جن کے کبھی صرف خواب ہی دیکھے تھے۔
وقت کے ساتھ اب والدہ کی صحت ویسی نہ رہی اور اب ان کا بستر سے اٹھنا بھی محال ہو گیا۔ اب پھونک والے معمول میں کبھی کبھی ناغہ ہونے لگا۔ مجھے بھی شاید اس پھونک کی عادت سی ہو گئی تھی کہ جس دن ناغہ ہوتا مجھے عجیب سی بے چینی ہونے لگتی۔ والدہ روز مجھے دفتر جانے سے پہلے اپنے پاس بلا لیتیں اور مجھ پر پھونکتیں۔
ایک صبح جب میں والدہ کے پاس گیا تو میں نے بیماری کی شدت ان میں کچھ زیادہ ہی محسوس کی۔ میں ان کے سرہانے بیٹھ گیا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا، ’ماں جی! آج مجھے آپ کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب محسوس ہو رہی ہے۔ آج میں دفتر نہیں جاؤں گا آپ کے پاس ہی رہوں گا۔‘
والدہ نے بہ مشکل نفی میں سر کو ہلاتے ہوئے کہا، ’بیٹا! نہیں ایسی کوئی بات نہیں، عمر کا تقاضا ہے، اس عمر میں طبیعت کا کوئی بھروسہ نہیں۔ میں ابھی دوا لیتی ہوں، ٹھیک ہو جاؤں گی۔ تم دفتر جاؤ، وہاں لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ان کے کام کرو اور انکی دعائیں حاصل کرو۔ تمہاری نوکری زیادہ اہم ہے۔۔ میری فکر مت کرو!‘
والدہ کے اس اصرار پر میں ان کے سر ہانے سے اٹھا اور ابھی دو قدم ہی اٹھائے تھے، پھر واپس مڑا اور والدہ سے پھر مخاطب ہوا۔ ’ماں جی! آج مجھے بتا ہی دیجیے کہ اس پھونک کہ پیچھے کیا حکمت ہے؟‘
والدہ نے پھر اسی طرح کا جواب دہرایا جو میں شروع سے سنتا آ رہا تھا۔ لیکن اس بار ان کا لہجہ کچھ عجیب تھا، جو میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ اور اس بار انکی آنکھوں میں چھپی مدھم سی نمی کو محسوس کیا، جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔
میں دفتر کے لیے روانہ ہوا، لیکن تمام راستے ما جی کے اس لہجے اور اندازِ بیان کو ہی سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ دفتر پہنچنے پر بھی میری سوچ کا محور وہی تھا۔ اسی دن ہی دفتر میں مجھے والدہ کے انتقال کی خبر ملی۔۔۔
اس دن سے آج تک میں اسی سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں، لیکن آج تک میں اس کا جواب نہیں ڈھونڈ پایا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اتنا پڑھنے لکھنے کے باوجود بھی میں ماں جی کے ذہن کو نہیں سمجھ پایا، یا وہ قدر ہی تھی جو میں نہ کر پایا، جو اب ان کے جانے کے بعد محسوس ہو رہی ہے۔ واقعی ماں کا دل کوئی نہیں جان پایا!
آج میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے؟ کسی چیز کی کمی نہیں۔ ہاں کمی ہے تو… ایک چیز کی۔۔!
اور وہ ہے… ماں جی کی ’پھونک‘ …!!!
رب کا پیام
میں نے کہا: تھک چکا ہوں-
تو نے کہا: لا تقنطوا من رحمة اللہ.
خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہوں (سورہ زمر/آیت 53)
میں نے کہا: کوئی بھی میرے دل کی بات نہیں جانتا....
تو نے کہا: ان اللہ یحول بین المرء و قلبه.
خدا انسان اور اس کے قلب کے بیچ حائل ہے (سورہ انفال/آیت 24)
میں نے کہا: تیرے سوا میرا کوئی
نہیں.
تو نے کہا: نحن اقرب من حبل الورید.
ہم گردن کی رگوں سے بھی انسان کے قریب تر ہیں ـ (سورہ ق/آیت 16)
میں نے کہا: لیکن لگتا ہے تو مجھے بھول ہی گیا ہے!
تو نے کہا: فاذکرونی اذکرکم.
مجھے یاد کرتے رہو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا ـ (سورہ بقرہ/آیت 152)
میں نے کہا: کب تک صبر کرنا پڑے گا مجھے؟
تو نے کہا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا.
تم کیا جانو شاید وعدے کا وقت قریب ہی ہوـ (سورہ احزاب/آیت 63)
میں نے کہا: تو بہت بڑا ہے اور تیری قربت مجھ نہایت چھوٹے کے لئے بہت ہی دور ہے، میں اس وقت تک کیا کروں؟
تو نے کہا: واتبع ما یوحی الیک واصبر حتی یحکم الله.
تم وہی کرو جو میں کہتا ہو اور صبر کرو تا کہ خدا خود ہی حکم جاری کردےـ (سورہ یونس/آیت 109)
میں نے کہا: تو بہت ہی پرسکون ہے! تو خدا ہے اور تیرا صبر و تحمل بھی خدائی ہے جبکہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے صبر کا ظرف بہت ہی چھوٹا ہے. تو ایک اشارہ کردے کام تمام ہے.
تو نے کہا: وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ
شاید تم کسی چیز کو پسند کرو اور تمہاری مصلحت اس میں نہ ہو ـ (سورہ بقرہ/آیت 216)
میں نے کہا: انا عبدک الضعیف الذلیل – میں تیرا کمزور اور ذلیل بندہ ہوں؛- تو کیونکر مجھے اس حال میں چھوڑ سکتا ہے؟
تو نے کہا: إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
خدا انسانون پر بہت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہےـ (سورہ بقرہ/آیت 143)
میں نے کہا: گھٹن کا شکار ہوں
تو نے کہا: قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ.
لوگ کن چیزوں پر دل خوش رکھتے ہیں ان سے کہہ دو کہ خدا کے فضل و رحمت پر خوش رہا کریں. (سورہ یونس – آیت 58)
میں نے کہا: چلئے میں مزید پروا نہیں کرتا ان مسائل کی! توکلتُ علی الله.
تو نے کہا: ان الله یحب المتوکلین.
خدا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے. (سورہ آل عمران/آیت 159)
میں نے کہا: غلام ہیں تیرے اے مالک!
لیکن اس بار گویا تو نے کہا کہ: خیال رکھنا؛
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ۔
بعض لوگ صرف زبان سے خدا کی بندگی کرتے ہیں، اگر انہیں کوئی خیر پہنچے تو امن و سکون محسوس کرتے ہیں اور اگر آزمائش میں مبتلا کئے جائیں تو روگردان ہوجاتے ہیں. (سورہ حج – آیت 11)
اللہ تعالی ہم سب کو قرآن شریف پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماءے اور اسے ہمارے لیےدنیااور آخرت میں کامیابی کا زریعہ بناءے -آمین
اموز قرنی_

Sunday 20 April 2014

کتاب زندگی .
کتاب زندگی کے ورق برابر الٹ رہے ہیں۔ ہر آنے والی صبح ایک نیا ورق الٹ دیتی ہے۔ یہ الٹے ہوئے ورق برابر بڑھ رہے ہیں اور باقی ماندہ ورق برابر کم ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔
اور ایک دن وہ ہو گا جب آپ اپنی زندگی کا آخری ورق الٹ رہے ہو گے۔۔۔۔۔۔۔
جونہی آپ کی آنکھیں بند ہوں گی، یہ کتاب بھی بند ہو جائے گی۔ اور آپ کی یہ تصنیف محفوظ کر دی جائے گی۔
کبھی آپ نے غور کیا اس کتاب میں آپ کیا درج کر رہے ہیں؟؟؟
روزانہ کیا کچھ لے کر آپ اس کا ورق الٹ دیتے ہیں۔ آپ کو شعور ہو یا نہ ہو آپ کی یہ تصنیف تیار ہو رہی ہے اور آپ اس کی ترتیب و تکمیل میں اپنی ساری قوتوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔
اس میں آپ وہ سب کچھ لکھ رہے ہیں۔ جو آپ سوچتے ہیں، دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، سناتے ہیں، چاہتے ہیں، کرتے ہیں، اور کراتے ہیں۔ اس میں صرف وہی کچھ نوٹ ہو رہا ہے۔ جو آپ کر رہے ہیں۔ اس کتاب کا مصنف تنہا آپ ہیں۔ ذرا آنکھیں بند کریں۔
اور سوچئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؛کل؛۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی کتاب آپ کے ہاتھ میں ہو گی اور شہنشاہ واحد و قہار آپ سے کہے گا؛
پڑھ اپنی کتاب ۔ آج اپنے اعمال نامہ کا جائزہ لینے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔
پھر سوچئے ان خوش نصیبوں کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ہو گا۔ جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور ان مجرموں پر کیا بیتے گی جن کی کتاب زندگی ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑائی جائے گی؟
ذرا غور کریں؛
کہ آپ اپنی کتاب زندگی میں کیا درج کر رہے ہیں جو آپ کو جنت یا جہنم کی طرف لے جائے گی ؟
تمام لڑکیوں سے ایک سوال۔
آپ فیس بک پر اپنی تصویریں کیوں اپ لوڈ کرتی ہیں؟
کمنٹس لینے کے لیے؟
کہ آپ بہت حسین ہو؟ ایک پری جیسی ہو؟
لیکن ان کمنٹس سے آپ کو کیا ملتا ہے؟
خوشی؟
یہ خوشی کب تک محسوس ہوتی ہے؟
ذیادہ سے ذیادہ دو، تین دن؟ یا جب بھی آپ کمنٹس پڑھتی ہوں گی، تب تب؟
لیکن اس خوشی کا آپ موازنہ کریں اس خوشی سے جو آپ کو جنت میں دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
اچھا یہ بتائیں کیا آپ کو اچھا لگے گا آپ کا شوہر کسی اور لڑکی کی تعریف کرے؟
نہیں نا؟
تو پھر آپ کسی اور کو کیوں موقع دیتی ہیں جو آپ کا محرم بھی نہیں؟
یقین کریں میری پیاری بہنوں، آپ بہت خوبصورت ہیں جب تک آپ پردے میں ہیں۔ اس کے لیے کسی سے پوچھنے کی یا کمنٹس لینے کی ضرورت نہیں۔ اللہ نے آپ کو عورت بنا کر ہی بہت اونچا مقام دیا ہے۔ اس کی قدر کریں اور اس بات کو سمجھیں۔
پھر پردہ تو میرے پیارے اللہ کا حکم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ سورۃ الاحزاب، آیت ٥٩
خود بھی سمجھیں اور عمل کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔ جزاک اللہ
چند دن پہلے ایک واقعہ میرے ساتھ ہوا، کہ میں نے فجر کی نماز کیلئے الارم لگایا ہوا تھا جو مجھے نماز کے ٹائم جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔
خیر، الارم بیچارا تو کامیاب ہو گیا، میں جاگ بھی گیا، لیکن باہر دیکھا تو بارش ہو رہی تھی۔
اسی وقت شیطان نے بھی موسلا دھار حملے شروع کر دئیے:
"کیا ضروری ہے کہ نماز پڑھی جائے؟ 
کیا ملا ہے اب تک؟
کون سی تمہاری نمازیں قبول ہونی ہیں؟
پہلے بھی تو کتنی نمازیں نہیں پڑھیں، ایک اور چھوٹ جائے گی تو کیا فرق پڑنا ہے؟
اللہ کو بھلا کیا ضرورت ہے تمہاری نماز کی؟
نماز میں موجود تو نہیں ہوتے پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہے ہوتے ہو، تو اپنی نیند برباد کیوں کر رہے ہو جاؤ جا کر سو جاؤ،
صبح آرام سے قضا نماز پڑھ لینا۔"
میں نے بھی شیطان کی بات مان لی اور جا کر سو گیا۔
جیسے ہی سونے کی کوشش کی تو پھر خیالات آنے شروع ہوئے:
"کیا نماز چھوڑنا تمہارے رب کی نافرمانی نہیں؟
نبی کریم ﷺ نے نماز کی کس قدر تلقین فرمائی اور میں انکے احکامات کو اہمیت ہی نہیں دے رہا۔۔
نماز پڑھوں گا تو ہی نماز قبول بھی ہو گی۔۔
اور نماز میں خیالات آتے ہیں تو کیا ہوا، اللہ کے سامنے حاضر تو ہو جاتا ہوں ناں۔۔
رات کو تو خوب شوق سے الارم لگایا تھا، تو اب کیا ہو گیا؟؟"
اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر کہ اس بروقت کی غیبی امداد نے مجھے پھر بستر سے اٹھایا اور نماز پڑھنے کی توفیق ملی۔
وہ رب تو ہماری مدد کرتا رہتا ہے ہم ہی اس کی طرف پیٹھ کر لیتے ہیں۔ اگر ہمارا یہ خیال پختہ ہو جائے کہ جو نیکی کی بات ہے وہ اللہ کا حکم ہے اور برائی کی بات شیطان کی پیروی،، تو شاید راستہ چننے میں آسانی ہو جائے۔
مگر ہم جو بیچ میں اگر، مگر ، یہ وہ ، اس طرح کی تاویلیں گھڑ لیتے ہیں، وہ ہمیں لاپرواہ بنا دیتی ہیں اور دوست دشمن کی صحیح پہچان سے ہم رہ جاتے ہیں۔
بہت سے احباب کو شکایت ہوتی ہے کہ ہم الارم کے باوجود نمازِ فجر کیلئے نہیں جاگ پاتے۔
میں آپکو ایک ترکیب بتاتا ہوں، مجھ سمیت بہت سے لوگ یہ ترکیب کامیابی سے آزما چکے ہیں۔ آپ بھی تجربہ کر لیجئے۔
رات کو سونے کیلئے بستر پر لیٹ کر آپ سورۃ فاتحہ، آیۃ الکرسی، سورۃ البقرہ کی آخری تین آیات اور چاروں قُل تو پڑھتے ہی ہونگے، ساتھ میں اگر سورۃ الکہف کی آخری چار آیات بھی پڑھ کر خود پر پھونک لیں اور اللہ سے کہہ دیں کہ یا اللہ مجھے فلاں وقت پر جگا دیجئے، تو انشاءاللہ اسی وقت آپکی آنکھ کھل جائے گی۔ پھر ہمت کر کے فجر کی نماز ادا کر لیں۔ یہ آیات اوّل تو یاد کرلیں، ورنہ اپنے موبائل میں تصویری یا تحریری صورت میں سیو کر لیں اور سونے سے قبل دیکھ کر پڑھ لیا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور اپنے احکامات پر عمل میں خلوص عطا فرمائے۔ آمین
اس پِنجرے میں انہوں نے ایک سیڑھی اور اسکے اوپر کچھ کیلے بھی رکھے
جب کوئی بندر سیڑھی پر چڑھنا شروع کرتا تو سائنسداں نیچے کھڑے ہوئے بندروں پر ٹھنڈا پانی برسانا شروع کر دیتے -
اس واقع کے بعد جب بھی کوئی بندر کیلوں کی لالچ میں اوپر جانے کی کوشش کرتا تو نیچے کھڑے ہوئے بندر اسکو سیڑھی پر چڑھنے نہ دیتے کچھ دیر کے بعد کیلوں کے لالچ کے باوجود کوئی بھی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا -
سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ایک بندر کو بدل دیا جائے - پہلی چیز جو نئے آنے والے بندر نے کی وہ سیڑھی پر چڑھنا تھا لیکن فورا ہی اسے دوسرے بندروں نے مارنا شروع کر دیا - کئی دفعہ پٹنے کے بعد نئے آنے والے بندر نے ہمیشہ کے لئے طے کر لیا کہ وہ سیڑھی پر نہیں چڑھیگا حتیٰ کہ اسے معلوم نہیں کہ کیوں ؟
سائنسدانوں نے ایک اور بندر تبدیل کیا اور اسکا بھی یہی حشر ہوا -اور مزے کہ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تبدیل ہونے والا بندر بھی اسے مارنے والوں میں شامل تھا - اسکے بعد تیسرے بندر کو تبدیل کیا گیا اور اسکا بھی یہی حشر (پٹائی) ہوا - یہاں تک کہ سارے پرانے بندر نئے بندر سے تبدیل ہو گئے اور سب کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا -
اب پِنجرے میں صرف نئے بندر رہ گئے جس پر کبھی سائنسدانوں نے بارش نہیں برسائی لیکن پھر بھی وہ سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کی پٹائی کرتے -
اگر یہ ممکن ہوتا کہ بندروں سے پوچھا جائے کہ تم کیوں سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کو مارتے ہو یقیناً وہ جواب دینگیں کہ ہمیں نہیں معلوم ؟ ہم نے تو سب کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے .................
اس بات کو ضرور دوسروں کو سمجھائيے تاکہ وہ بھی اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم اپنی زندگی کیوں ایسے گزار رہے ہیں جیسا کہ وہ گزر رہی ہے ہم وہ کیوں کرنے لگ جاتے ہیں جو دوسروں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کیا ہمارے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے کیا اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر معاملے میں ہماری رہنمائی نہیں فرمائی
تو کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں اور کسی عمل کو کرنے کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ سب ہی کر رہے ہیں ہم نے کرلیا تو کیا ہوگیا
ذرا سوچیئے
شرم ہم کو مگر آتی نہیں
.........................
بھارت کے ہندوؤں کو دیکھ لیجیے۔۔۔!!
وہ بالکل اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں،
ان کے ہاں بیٹی پیدا ہونے کو آج بھی منحوس سمجھا جاتا ہے اور چودہ سو سال پہلے بھی نحوست مانا جاتا تھا،
ناچ گانا ان کے مذہب کا حصہ ہے اور سب لوگ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں،
ان کے مذہب میں لڑکیوں کو دیکھنے کا گناہ نہیں۔۔ اس لئے ہر مرد آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے،
ماڈلز بھی کم سے کم کپڑے پہنتی ہیں کیوں کہ ان کے مذہب نے اس پر کوئی سختی نہیں کی،
ناپاک رہتے ہیں، ذہن بھی گندا اور ناپاک ہے،
ہمہ قسمی بتوں کو پوجتے ہیں،
ہاں ایک بات ہے سادھووں، بھکشیوں کا احترام کرتے ہیں،
انگریزوں کا دن بھی مناتے ہیں اپنے دن بھی مناتے ہیں،
سود کھاتے ہیں، سور کھاتے ہیں،
کبھی دل کیا بت کے سامنے کھڑے ہو گئے، شراب پی لی،
پروا ہی نہیں جنت میں جانا ہے یا دوزخ میں جانا ہے،
بس یقین ہے کہ مرنے کے بعد پھر دوسرا جنم ہو گا پھر تیسرا ہو گا۔۔۔
اور اسی طرح مرتے جیتے رہیں گے۔۔!!
ایک 'بے چارے' پاکستان کے مسلمان ہیں،
ان کا مذہب ہے اسلام،
جس میں عورت کو عزت دی گئی،
پردہ کرنے کا حکم دیا گیا،
بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا،
لیکن نہ ان کے سر پر دوپٹہ ہوتا ہے، نہ پردہ کرتی ہیں،
جسم کی نمائش کا بے انتہا شوق ہے،
بیٹی کو زحمت سمجھتے ہیں،
اس قوم کو معلوم ہے کہ سود کا استعمال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے اس کے باوجود دھڑا دھڑا دجالی فوج تیار ہو رہی ہے،
شراب بھی شوق سے پیتے ہیں،
عورت کو پیروں کی جوتی سمجھا جاتا ہے اور خود عورت کو بھی پیروں کی جوتی ہی بننے کا شوق ہو گیا ہے،
نوجوان داڑھی کا ہنس ہنس کر مذاق اڑاتے ہیں،
دین کا پتہ نہیں لیکن مولوی کی ایک منٹ میں ایسی تیسی کر دیتے ہیں،
نماز پڑھتے نہیں،
اللہ کا ذکر کرتے نہیں،
گانے گاتے ہیں، گانا سنتے ہیں، اور گانے کو حلال قرار دینے کیلئے جاہلانہ منطقیں پیش کرتے ہیں،
لڑکیاں لڑکے مست نظر آتے ہیں ،
اتنی اچھی قوم ہے کہ حرام کام کرکے بھی اللہ کا شکر ادا کرتی ہے کہ
اللہ کا بڑا احسان ہے پاکستان آئیڈل جیت گئی،
اللہ کا شکر ہے میری فلم سپر ہٹ ہو گئی،
اسلام نے جس جس کام سے منع کیا ہے اس قوم نے قسم کھائی ہے کہ بس وہ ہی کام کرنے ہیں،
اور جو کام اللہ اور رسول ﷺ کو پسند ہیں وہ تو بالکل نہیں کرنے،
عورتوں نے ٹخنوں سے شلوار اونچی کر لی ہے جبکہ مردوں نے نیچی کر لی ہے،
ہے کوئی فرق ہم میں اور ان میں؟ سوائے زبانی کلمے کے؟
اور کلمہ بھی وہ جس کی شرائط تک ہمیں نہیں پتا،
پھر کہتے ہیں کہ حکمران ظالم ہیں،
اللہ ہماری سنتا نہیں،
دنیا میں ہماری کوئی عزت نہیں۔۔۔۔۔!!!
وہ اک تازہ گلاب تھا صبح جب میں گھر سے نکلا تو باہر رکھے گلاب کے پودے میں سے ایک چھوٹا سا گلاب کا پھول ٹوٹا ہوا پڑا تھا۔ شاید تھوڑی دیر پہلے ہی گرا تھا اسی لیے بالکل تازہ اور کھلا کھلا تھا۔
مجھے پھول توڑنا بالکل پسند نہیں ہے، نہ ہی میں کسی کو توڑنے دیتا ہوں۔ اسی لیے اس چھوٹے سے گلاب کو زمین پر پڑے دیکھ کر بہت افسوس ہوا اور میں نے اسے اٹھا کر اپنی گاڑی کے ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔
کچھ گھنٹوں بعد جب میں نے اسے دیکھا تو وہ جو صبح کھلا ہوا تھا اب ایک کلی میں بدل چکا تھا اور کافی حد تک مرجھا چکا تھا۔ شاید بلکہ یقینا” سورج کی تپش کی وجہ سے۔ وہ خود تو مرجھا گیا مگر اس کی بھینی بھینی خوشبو اب بھی پھیلی ہوئی تھی۔
کچھ لوگ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں نا؟ بالکل ترو تازہ ہوتے ہیں۔ ہر پل مسکراتے، خوشیاں بکھیرتے مگر پھر ہمارے سخت لہجے یا کڑوے الفاظ بالکل اسی طرح ان کی مسکراہٹ چھین لیتے ہیں۔
وہ ہمارے الفاظ اور لہجے کی گرمی نہیں سہہ پاتے اور بالکل اسی گلاب کے پھول کی طرح مرجھا جاتے ہیں۔ رنگ ماند پڑ جاتے ہیں، تازگی ختم ہوجاتی ہے۔
مگر پھر بھی ان کا احساس، ان کی باتیں ہمارے ارد گرد ہمیشہ رہتی ہیں۔ بالکل ایسی ہی خوشبو کی طرح۔
اپنے ارد گرد کا جائزہ لیجیے۔ کہیں کوئی تازہ گلاب مرجھا نہ جائے۔ کسی کی مسکراہٹ آپ کی ایک جھڑکی کی نظر نہ ہوجائے۔ کیونکہ کھلنے میں وقت لگتا ہے مگر مرجھانے کے لیے چند پل بھی کافی ہوتے ہیں۔ !
کبھی بھی کسی کا دل نہ دکھايے ۔
معزز ممبران: عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جمعہ کے دن کی فضیلت اور نماز کے مسائل وغیرہ پر عموماً مردوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے. کبھی جمعہ کے دن خواتین کے مسائل پر توجہ نہیں کی گئی. لہٰذا خواتین کے جمعہ کے مسائل پر یہ پوسٹ حاظرِ خدمت ہے۔
خواتین کے لیئے جمعہ کے مسائل:
اس امت کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات اور بہترین فضائل سے نوازا ہے، ان میں سے ایک جمعہ کا مبارک دن بھی ہے، جس سے یہود ونصاری محروم کر دیئے گئے۔
ایک روایت میں آتا ہے، "بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوا وہ جمعہ کا دن ہے، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیئے گئے، اور اسی دن وہ جنت مں داخل کئے گئے، اور جنت سے اسی دن زمین پر بھیجے گئے، اور قیامت بھی جمعہ کے دن ہی قائم ہو گی."
لیکن اس کے ساتھ ہی خواتین، بچے، مسافر اور معذور پر جمعہ فرض نہیں کیا گیا۔
عورت پر جمعہ فرض نہیں، لیکن اگر جمعہ کی نماز میں شریک ہو جائے تو اس کا جمعہ ادا ہو جائے گا اور ظہر کی نماز ساقط ہو جائے گی.
( آپ کے مسائل اور اُن کا حل - مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ؒ )
جمعہ کے دن غسل کرنے کی فضیلت :
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، "تم میں سے جو شخص جمعہ پڑھنے آئے تو غسل کرے۔"
(حدیث نمبر 894، صحیح بخاری)
لہذا جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے۔ لیکن جو لوگ جمعہ کی نماز کے لئے نہ آئیں۔۔ جس پر جمعہ فرض نہیں ۔۔ جیسے عورتیں، بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔
ماسوا اس کے کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں نماز پڑھنے کی نیّت سے جائیں تو ہر بالغ پر غسل واجب ہوگا۔ دوسری صورت میں ہر سات دن میں جمعہ کے دن نہا دھو کر پاک صاف ہونے کی تاکید احادیث میں آئی ہے۔
جمعہ کے دن ایک گھڑی جس میں دعا قبول ہوتی ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے ذکر میں ایک دفعہ فرمایا کہ اس دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان بندہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی چیز اللہ پاک سے مانگے تو اللہ پاک اسے وہ چیز ضرور دیتا ہے۔ ہاتھ کے اشارے سے آپ ﷺ نے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے۔
(حدیث نمبر 935، صحیح بخاری)
خواتین کی اکثریت کیونکہ بہت زیادہ لغو اور بیکار باتوں میں مشغول رہتی ہیں، شوہر کی احسان فراموش ہوتی ہیں، غیبت کرنے کی شوقین ہوتی ہیں۔۔ لہٰذا انھیں چاھئے کہ لغو اور بیکار باتوں، غیبت وغیرہ سے خود کو بچائیں اور کثرت سے ذکر اور استغفار میں مشغول رہیں اور جمعہ کے دن خاص طور پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار کریں اور اپنے لئے ہدایت مانگیں.
جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت :
جمعہ کے دن کثرت سے درود شریف پڑھنے کی فضیلت آئی ہے۔ جمعہ کے دن جو شخص درود پاک پڑھتا ہے اُس کا درود اس کے نام کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔ تو خواتین کو چاہیئے کہ عام حالات میں بھی اور خاص طور پر جمعہ کے دن درودِ پاک کثرت سے پڑھیں اور فضول اور لایعنی باتوں سے پرہیز کریں.
جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھنے کی فضیلت :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "جس نے جمعہ کے روز سورۃ الکھف کی تلاوت کی اس کیلئے اللہ تعالی دو جمعوں کے درمیان ایک نور روشن فرما دیتا ہے ۔"
(بروایت حاکم و بیہقی، صحیح الجامع الصغیر ، للالبانی، حدیث 6346)
’’حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، "جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اس کے قدموں کے نیچے سے لیکر آسمان تک نور پیدا ہوتا ہے جو قیامت کے دن اس کے لیے روشن ہو گا اور اسکے دونوں جمعوں کے درمیان والے گناہ معاف کر دیۓ جاتے ہیں‘‘
(الترغیب والترھیب 1 /298)
جمعرات کے دن سورج غروب ہونے سے لے کر جمعہ کے دن سورج غروب ہونے تک سورۃ الکھف کی تلاوت کی جا سکتی ہے.
مساجد میں عورتوں کے جانے کی ممانعت :
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، "عورت کی نماز جو اُس کے کمرے میں ہو، وہ اُس نماز سے بہتر ہے، جو اُس کے دالان میں ہو۔ اور اُس کی نماز جو اندر والے خصوصی کمرے میں ہو، وہ اُس نماز سے بہتر ہے جو کسی عام کمرے میں ہو"
ایک اور حدیث میں ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے، "عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے، اور بےشک جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اُسے تکنے لگتا ہے اور عورت اُس وقت سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہوتی ہے، جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے.
(رواہ ابو داؤد ابن خزیمہ فی صحیحہ ، کزافی الترغیب والترہیب )
ان روایتوں میں عورتوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ نماز پڑھنے کے لیئے مسجد میں جانے کی فکر میں نہ پڑیں کیونکہ گھر سے باہر طرح طرح کے آدمی ہیں۔ شیطان کے لشکر ہیں، فاسق و فاجر لوگ ہیں جن کا شیوہ بدنظری اور گناہ گاری ہے۔ یہ لوگ باہر نکلنے والی عورت پر شیطان کے توجّہ دلانے پر اپنی نظریں گاڑ دیتے ہیں۔ جیسے مَردوں کے ذمّے مال کمانا اور ضرورت کی چیزیں فراہم کر کے لانا ہے، کیونکہ وہ باہر نکلتے ہیں، اسی طرح سے مساجد میں جا کر نماز باجماعت کی ادائیگی بھی اُن کے ذمّے لازم کر دی گئی ہے۔ عورت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے گھر سے باہر نہ نکلے۔ ہاں اگر کوئی بہت مجبوری ہو تو خوب زیادہ پردہ کے اہتمام کے ساتھ نکلنے کی اجازت دی گئی ہے.
حضرت اُم رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک صحابیہ تھیں، اُنہوں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ ﷺ، میں آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کو محبوب رکھتی ہوں۔"
آپﷺ نے فرمایا، "مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہو حالانکہ تمہارا کمرے میں نماز پڑھنا دالان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور دالان میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور باھر کے صحن میں نماز پڑھنا تمہارے اپنے قبیلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارے قبیلے کے مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم میری مسجد میں آکر نماز پڑھو"
(راوی کا بیان ہے کہ) یہ بات سن کر حضرت اُمِّ حمید رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنے نماز پڑھنے کی جگہ اپنے گھر کے بالکل آخری اندرونی حصّہ میں مقرّر کرلی جہاں خوب تاریکی تھی اور موت آنے تک برابر اس میں نماز پڑھتی رہیں.
(الترغیب والترہیب بروایت احمد و ابن خزیمہ و ابن حبان)
اُس زمانے کی عورتوں میں دین کی باتوں پر عمل کرنے کا جذبہ تھا۔ انہوں نے سرورِ دوعالم ﷺ کی بات سن کر اپنے گھر کے بالکل اندر نماز کی جگہ بنا لی اور وہیں نماز پڑھتی رہیں۔ آج کل کی عورتیں حدیثیں بھی سنتی ہیں، کتابیں بھی پڑھتی ہیں، اور جو شریعت میں پردے کی اہمیت ہے، اسے بھی جانتی ہیں لیکن پھر بھی عمل کرنے سے گُریز کرتی ہیں. بعض عورتوں کو نماز کا شوق اور ذوق ہوتا ہے جو بہت مبارک ہے، لیکن مسجدوں میں جا کر نمازیں پڑھنے کی رغبت رکھتی ہیں، اور بہت سے مواقع (مثلاً شبِ برأت، ختم قرآن وغیرہ ) میں مساجد میں پہنچ جاتی ہیں اور اس میں ثواب سمجھتی ہیں، حالانکہ بے پردگی ہو جاتی ہے اور بچّے ساتھ ہونے کی وجہ سے مسجد کی بےحُرمتی بھی ہوتی ہے۔ وہاں بیٹھ کر باتیں بھی بناتی ہیں جس سے مَردوں کی جماعت میں خلل آتا ہے۔ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جن سے پرہیز کرنا لازم ہے.
اس سلسلے میں یہ احادیث مبارکہ دیکھئے۔
"اُس عورت کی نماز قبول نہ ہوگی جو مسجد میں جانے کے لئے خوشبو لگائے، جب تک ایسا غسل نہ کرے جیسا ناپاکی دور کرنے کے لیئے پورا غسل کیا جاتا ہے." (رواہ ابو داؤد )
"اور اس پر قانون تھا کہ فرض نماز کا سلام پھیر کر پہلے عورتیں چلی جاتی تھیں ( اُن کی صف سب سے پیچھے ہوتی تھی ). حضورِ اقدس ﷺ اور آپ کے ساتھ دوسرے نمازی اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے تھے، جب عورتیں چلی جاتیں تب اٹھتے تھے۔"
(صحیح بخاری ، حدیث نمبر 119، 120)
آج کل نہ تو پردے کا اہتمام ہے، نہ مَردوں میں تقوٰی اور طہارت ہے، نہ عورتوں میں سادہ لباس کا رواج ہے۔ خوب بن ٹھن کر خوشبو لگا کر نکلتی ہیں، برقعہ پہنتی ہیں تو بھڑک دار اور پھولدار اور بہت سی عورتیں منہ کھول کر چلتی ہیں۔ کچھ ایسی بھی ہیں جن کے نقاب میں چہرہ جھلملاتا رہتا ہے، ان حالات میں باہر نکلنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
امُ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنے زمانے کی عورتوں کے بارے میں فرمایا تھا، "حضورِ اقدس ﷺ اگر عورتوں کا یہ رنگ ڈھنگ دیکھ لیتے جو انہوں نے آج بنا لیا تو اُن کو ضرور (سختی کے ساتھ) مسجد میں آنے سے منع فرماتے۔ جیسا کہ دوسری امتوں میں بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں."
(بخاری شریف ص 120، جلد اوّل )
(ماخوذ از تحفۂ خواتین - مولانا محمد عاشق الٰہی بلندشہری مدظلہ العالی)
"لیکن اللہ کو تو پتا ھے نا..!!"
کل رات خاندان میں ایک تقریب تھی' رات کو سب لوگ جمع تھے.. یہی کوئی رات تین کا وقت ھوگا کہ سب کو چائے کا شوق ھوا..
میں نے کہا کہ اس وقت کون اتنی ساری چائے بنائیگا میں باھر ھوٹل سے چائے لے آتا ھوں..
میں باھر نکلا.. رات کے اس پہر اکثر ہوٹل بند تھے لیکن گلشن اقبال بلاک 13 ڈی کے پاس پٹھان بھائی کا ایک ہوٹل کھُلا مل گیا.. خان صاحب سے تیس (30) چائے پارسل کا کہا..
وہ چائے بنا بنا کر تھیلی میں ڈالتا رھا اور پھر ساری تھیلیاں ایک بڑی تھیلی میں جمع کرکے رکھ دیں.. میں پیسوں کی ادائیگی کرچکا تھا' سو بڑی تھیلی اٹھا کر جانے ھی والا تھا کہ اچانک پٹھان نے کہا..
" رُک جاؤ بھائی ! ابھی چار چائے رہ گیا ھے.. بنا رھا ھوں ' بنا کر ڈالتا ھوں.. "
میں نے کہا.. " یار خان ! اگر میں لے بھی جاتا تو مجھے کون سا پتا لگنا تھا.. "
کہنے لگا.."گھر جا کر آپ کو تو پتا نہیں لگنا تھا لیکن اوپر جا کر مجھے پتا لگ جانا تھا.."
اس کا یہ جملہ سن کر میں فرطِ مسرت سے جھوم اُٹھا..
کاش آج ھر کوئی اپنے بھائی کو دھوکہ دینے سے پہلے یہی سوچ لے کہ ممکن ھے اس کو پتا نہ لگے لیکن اللہ کو تو پتا ھے نا..!!
دفتر آنے کے لئے رکشے کی تلاش میں کھڑا تھا کہ وہی سفید داڑھی اور بالوں والے بابا جی مل گئے۔۔ کوئی ایک ہفتہ پہلے ہی میں ان کے رکشے پر دفتر آیا تھا۔۔۔ وہ مجھے پہچان گئے لیکن میں نہیں پہچانا ۔۔۔ بابا جی کی عمر کوئی پینسٹھ اور ستر سال کے درمیان ہو گی۔۔ شکل و صورت سے پشتوں نظر آتے ہیں۔۔ سفید شلوار قمیض مٹی پڑ پڑ کے خاکی ہو گئی ہے۔۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی دھبہ یا داغ نظر آئے۔۔۔ چہرے پر سنجیدگی، اطمنان اور دبدبہ ہے،جو مخاظب کو عزت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔
بابا جی نے اپنا رکشہ روکا تو میں نے سلام کے بعد سوال کیا
محترم فلاں جگہ جانا ہے کتنے پیسے لین گے؟؟
میرا تجربہ ہے ،کہ بہتر یہ ہی ہے کہ آپ ٹیکسی یا رکشہ لینے سے پہلے ہی رکشہ /ٹیکسی ڈرائیور سے کرایہ طے کر لیں ۔۔۔ یہ عمل منزل پر پہنچ کر بدمزگی سے بچاتا ہے۔۔۔
بابا جی مسکرا کر بولے بیٹا وہی 100 روپے دے دینا جو پچھلی مرتبہ دیئے تھے۔۔
میں بولا بابا جی میں تو ایک سو بیس دے کر جاتا ہوں ایسا ہو نہیں سکتا کہ میں نے آپ کو بیس کم دیئے ہوں۔۔
بابا جی مسکرائے اور دروازہ کھول دیا تاکہ میں بیٹھ سکوں۔۔۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید میں نے پیسے پورے نہیں دیئے ہونگے اس لئے میں نے پھر پوچھا
بابا جی کیا پچھلے ہفتے میں نے آپ کو پیسے کم دیئے تھے؟؟
بابا جی بولے نہیں سر ۔۔۔ مگر اگر میں کہوں کے کم دیئے تھے تو کیا آپ وہ پیسے آج دے دیں گے؟
میں بولا جی بالکل۔۔ گو کہ مجھے تو یاد نہیں ایسا ہوا ہو لیکن اگر ایسا ہوا ہے۔۔۔ تو میرے لئے یہ بات باعث شرمندگی ہے ۔۔ میں جتنے پیسے دے کر روزانہ آتا ہوں۔۔۔ اگر کوئی کم بھی مانگے تو میں اسے پھر بھی اسے اتنے ہی دیتا ہوں کیونکہ جب میرے رب کی رحمتیں مجھ پر کم نہیں ہوتیں تو میں کیونکر چند روپوں کی خاطر رب کی ناشکری کروں اور ناراضگی مول لوں اور کیسی کا حق ماروں یا خدا نخوستہ اس کا سوچوں ؟
بابا جی مسکرائے اور بولے ماشاء اللہ، آپ نے مجھے 120 ہی دیئے تھے۔۔۔
بابا جی کی یہ باتیں سن کر مجھے اشتياق ہوا کہ ان سے گفتگو کروں اور پوچھوں کہ یہ کوں ہیں اور کہاں سے ہیں۔
میں نے پوچھا : بابا جی آپ پٹھان ہیں؟
بولے نہیں پنجابی ہوں اور میانوالی سے تعلق ہے۔۔ لیکن اب لاہوری بن چکا ہوں۔۔۔
میں نے پھر سوال کیا
ریٹائیرڈ فوجی؟
بولے جی بیس سال پہلے ریٹائیر ہو ا تھا۔۔ پہلے نوکری کی پھر رکشہ خرید لیا پچھلے دس سال سے یہ ہی کام کر رہا ہوں۔۔
میں بولا آپ کا رکشہ ٹو سٹروک ہے ۔۔لوگ تو فور سٹروک کو ترجیع دیتے ہیں ۔۔ کتنا کما لیتے ہیں؟
بابا جی بولے الحمدللہ روزانہ پانچ سات سو کما لیتا ہوں۔ اللہ کا کرم ہے پینشن اور ان پیسوں سے میرا اور میری بیوی کا بہت اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔ ذمہ داری ہے نہیں اس لئے رکشہ چلا کر اپنے آپ کو مصروف بھی رکھتا ہوں۔۔
میں نے پوچھا کیا آپ کی اولاد نہیں؟
بولے ماشاء اللہ دو بیٹے ہیں اور دونوں اپنی جگہ خوش اور آباد ہیں۔۔
میں نے کہا تو پھر آپ گھر آرام وغیرہ کریں ماشاء اللہ بیٹے اتنا تو کما ہی لیتے ہونگے کہ آپ کو کام کی ضرورت نا پڑے؟
بابا جی بولے : نہیں سر ساری زندگی ان کو کھلایا ،پلایا اور پڑھایا ہے۔۔ سب کچھ محبت میں کیا ہے ۔۔ محبت کا معاوضہ نہیں لیا جاتا ۔۔۔ اور مجھے بھی یہ اچھا نہیں لگتا کے ان سے پیسے وغیرہ لو ں۔ ویسے بھی اب ان کے اپنے خاندان ہیں وہ اپنے خاندان کی ضروریات سہی طریقے سے پوری کریں اسی میں ہم بوڑھا بوڑھی کی خوشی ہے۔۔۔
میں نے پوچھا آپ کہیں بعیت ہیں؟
مسکرائے اور بولے: نہیں۔۔۔ بس نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہوں ،کوشش کرتا ہوں کسی کو مجھ سے نقصان نہ پہنچے۔۔۔ اگر میرا نقصان ہو جائے تو اپنی غلطیون کی طرف دیکھتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کے مجھے زندگی سمجھنے کا ایک اور موقع دیا۔۔۔
سر زندگی میں کبھی حرام کا ایک نوالہ نہیں کھا یا اور نا ہی گھر والوں کو کھلایا ہے۔۔ محنت کرتا ہوں اور حلال کماتا ہوں کبھی کسی سواری سے حق سے زیادہ پیسے نہیں مانگے۔۔۔ اسی لئے ۔۔۔ کبھی ایک آدھ گھنٹے سے زیادہ خالی بھی بیٹھنا نہیں پڑا۔۔۔ ابا جی کسان تھے۔۔۔ اللہ والے تھے ۔۔۔ انھوں نے رب سے باتیں کرنے کی عادت ڈلوائی۔۔۔
وہ کہتے تھے اپنا غم اور مشکلات صرف اللہ کو بتایا کرو۔۔۔۔ اس یقین کے ساتھ، کہ وہ تمھیں جواب بھی دے گا اور تمھاری تکلیف بھی دور کرے گا۔۔
میں نے پوچھا ماشاء اللہ آپ تو زندگی سے بہت مطمئن اور خوش ہیں ، اس خوشی اور اطمنان کا راز کیا ہے؟
بابا جی بولے : سر اس دنیا میں خوشیاں بانٹین اور ہر ایک کو اپنی خوشی میں شریک کریں لیکن اپنے غم ،سوائے اللہ کے کسی کو نہ بتائیں ۔۔
ہاں دوسروں کی غمی میں ضرور شریک ہوں۔۔۔ اپنےغم اور مشکلات صرف اللہ کو بتائیں ۔۔۔ وہ سب کچھ جانتا ہے ۔۔۔ مگر وہ اپنے بندے کے اس فعل کو پسند کرتا ہے۔۔۔ جب اسکا بندہ ،اسے اپنا درد بتاتا ہے اور پھر اس درد کو دور کرنے کی فریاد کرتا ہے ۔۔۔۔ جب بندہ ایسا کرتا ہے تو اللہ سوہنے کی رحمت موج مارتی ہے اور بندے کی کشتی پار لگ جاتی ہے۔۔۔
میں نے پوچھا: بابا جی کتنا پڑھے ہوئے ہیں باتیں تو آپ بہت پڑھی لکھی کر رہے ہیں؟
بابا جی بولے : سر میں چھ جماعتیں پڑھا ہوں۔۔۔ لیکن دنیا خود بھی تعلیم دیتی ہے بس بندے کو ارد گرد دھیان رکھنا ہوتا ہے اور پھر غور و فکر کرنی ہوتی ہے۔۔۔
میں سوچ میں پر گیا کہ اس بوڑھے شخص میں کتنی خودداری اور قناعت ہے۔۔ کتنا خوش قسمت ہے کہ اتنے کم پر خوش اور صابر ہے ۔۔۔ اللہ کی کتنی رحمت ہے اس پر، اللہ نے اسے دنیا سے توقعات رکھنےسے بچا رکھا ہے اور اسے بے نیاز کر دیا ہے۔۔
اسی سوچ میں دفتر آ گیا ۔۔
پیسے دیئے اوردفتر آ کر سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔پہلے ای میلز چیک کیں اور فیس بک اکاونٹ میں لاگ ان ہو گیا۔۔۔
اسی دوران حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث ذہن میں گونجنے لگی۔۔۔
الکاسب حبیب الله
محنت کش اللہ کا دوست ہوتا ہے۔
شاید رکشے والے بوڑھے بابا کی باتوں کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بابا محنت کر کے روزی کماتا ہے۔۔ وہ محنت کرتا ہے،توکل کرتا ہے اور راضی بالرضا رہتا ہے۔۔۔
رب رحمان اسے اپنی جناب سے روزی عطا کرتا ہے ۔۔ اس کی نیت ، صاف دلی اور محنت کا ثمر اور اللہ کی ایک بڑی عطا۔۔۔ جسے۔۔۔ حکمت کہتے ہیں اس کے چہرے اور گفتگو سے عیاں ہوتی ہے۔۔
میں ایک متمول خاندان میں پیدا ہوا۔۔ جو بات منہ سے نکلتی وہ تقریباً پوری ہو جاتی۔۔۔ جس سوسائٹی میں تعلیم پائی وہاں اکثر بچے محنت کشوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے۔۔ لیکن الحمدللہ میرے والدین نے ہمیشہ ہم بہن بھائیوں کو انسان کی عزت کرنی سکھائی۔۔۔لیکن پھر بھی کئی بار سٹیٹس کا خناس ذہن میں آ ہی جاتا۔۔
یہ 1996 کی بات ہے کہ گیزر کو جانے والا پائپ زیر زمیں ٹوٹ گیا۔۔۔ ابو نے دفتر جانے سے پہلے مجھے کہا ۔۔۔۔کہ ایک مزدور لے آؤں تا کہ وہ فرش توڑ کر پائپ نکال دے پھر پلمبر بلا کر پائپ بدلاؤں ۔۔۔ اور اس کے بعد مزدور سے سیمنٹ بجری ڈلوا کر ٹوٹا فرش جڑوا لوں۔۔۔
ابو دفتر چلے گئے۔۔۔ یہ ایف ایس سی کے امتحان دینے کے بعد کا زمانہ تھا ۔۔۔ جسمانی فٹنس اور سٹیمینا اپنے عروج پر تھا ۔۔۔۔ بیٹھے بیٹھے ایسے ہی خیال آیا جو کام مزدورسے کروانا ہے ۔۔۔ میں یہ کام خود کیوں نہ کر لوں ۔۔۔۔اوزار وغیرہ تو موجود ہیں۔۔سو ابو کے جاتے ہی میں نے جگہ توڑنی شروع کر دی ا۔۔۔ ساری دن کوئی تین چار فٹ فرش توڑا اور کوئی دو ڈھائی فٹ کھدائی کی۔۔۔ بالاخر وہ جگہ مل ہی گئی جہاں سے پائپ ٹوٹا ہوا تھا۔۔۔
شام کو ابو آئے تو میں نے ابو کو بتایا کہ مزدور تو کوئی نہیں ملا اس لئے میں نے یہ کام خود کیا ہے۔۔۔ نہا دھو کر جب چائے کے لئے بیٹھے تو مجھ سے دایاں بازو ہلانا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔ پورا جسم سخت تکلیف میں تھا۔۔۔ میں نے ابو کو کیفیت بتائی ۔۔ تو وہ ہنس پڑے اور مجھے کہا کہ تجھے کس نے کہا تھا کہ یہ کام کرتا ۔۔۔ پھر دو بروفین کی گولیان دیں اور آرام کا کہا۔۔
ساری رات اذیت میں گزری۔۔ لیکن اللہ کی رحمت سے اس بات کا احساس ہوا کہ مزدوری کرنا کتنا مشکل کام ہے۔؟۔ ہم جنھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ کس طرح محنت کر کے روزی کماتے ہیں۔۔۔
میں تو دو چار فٹ فرش توڑ کر اور کھدائی کر کے بے حال ہو گیا ۔۔۔ جبکہ وہ جو روزانہ اس سے کئی گنا زیادہ کام ۔۔۔۔ اپنی اولاد اور خاندان کی روزی کمانے کے لئے کرتے ہیں اور اس پر اللہ کی رضا کے لئے پوری ایمانداری سے کرتے ہیں وہ یقیناً عظیم لوگ ہیں ۔۔۔
شاید انہی کے لئے اللہ کے حبیب نے الکاسب حبیب اللہ کہا ہے۔۔۔ یہ ہی لوگ ہیں جو معاشرے کی طاقت ہیں۔۔۔ ہمیں ان کا احترام کرنا چاہئے کہ کوئی پتہ نہیں یہ محنت کرنے والا اللہ کو کتنا پسند ہو۔۔۔
اللہ ہمیں رزق حلال کمانے اور اس کی سمجھ رکھنے اور محنت کشوں کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔
آمین ثم آمین

Friday 11 April 2014


یہ ان دنوں کی بات ھے جب تحریک ختم نبوت زوروں پر تھی.. مولانا احمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ شیخو پورہ تشریف لائے اور ایک جلسے میں مرزا غلام احمد قادیانی کو الو کا پٹھا کہہ دیا..
قادیانیوں نے ان پر مقدمہ کر دیا..
مولانا احمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ پریشان تھے کہ اب اس کو الو کا پٹھا کیسے ثابت کروں.. انہوں نے اپنی اس پریشانی کا حال
مولانا لال اختر حسین کو سنایا اورکہا کہ اگر اسے الو کا پٹھہ ثابت کردیں تو میں آپ کو انعام دوں گا اور آپ میرے صفائی کے گواہ ھوں گے..
مولانا لال اختر حسین نے تاریخ اور دن نوٹ کیا اور مقررہ روز شیخوپورہ کی عدالت میں پہنچ گئے جہاں دو مجسٹریٹ مقدمہ سن رھے تھے.. مولانا لال اختر حسین نے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب سے عدالت کے سامنے دو حوالے پیش کیے اور کہا..
"مرزا اپنی کتاب میں لکھتا ھے.. جب نئی نئی گرگابیاں بازار میں آئیں تو میری ماں نے گرگابی لے کردی.. اس سے پہلے میں دیسی جوتی پہنا کرتا تھا.. جب گرگابی پہن کر چلتا تو میرے ٹخنے آپس میں ٹکراتے تھے اور کبھی کبھی تو خون بھی بہہ نکلتا تھا.. میں نے ماں سے کہا.. ماں یہ مجھے کیا لے دیا.. میری ماں نے جب میرے پاؤں کی طرف دیکھا تو دایاں جوتا بائیں اور بایاں دائیں پاؤں میں پہن رکھا تھا.. کہنے لگا.. ماں مجھے پتہ نہیں چلتا کہ دایاں کون سا ھے اور بایاں کون سا..
ماں نے اس جوتے کے جوڑے پر دو پھمن لگا دیے.. دائیں پر سرخ اور بائیں پر سبز.. مرزا کہتا ھے کہ اس کے باوجود میں جوتا الٹا پہن لیا کرتا تھا..
دوسرا حوالہ یہ دیا.. مرزا کہتے ھیں.. "مجھے گڑ کھانے کا بہت شوق ھے.. گھر سے چوری گڑ لے کر اپنی جیب بھر لیتا.. مجھے پیشاب کی بھی بیماری تھی.. مجھے باربار پیشاب آتا تھا.. جیب میں ایک طرف مٹی کے ڈھیلے اور دوسری طرف گڑ کے ڈھیلے جمع کرتا تھا.. اکثر میرے ساتھ یہ ھوتا تھا کہ استنجاء کی جگہ گڑ استعمال کرلیا کرتا تھا اور گڑ کی جگہ مٹی کا ڈھیلا کھا لیا کرتا تھا.."
دونوں مجسٹریٹ مسکرانے لگے..
ایک مجسٹریٹ نے دوسرے سے کہا.. "اس کو الو کا پٹھا نہ کہیں تو اور کیا کہیں.."
مولانا جو کٹہرے میں کھڑے تھے' فورا بول اٹھے.. "اس کو بھی گرفتار کرلو.. لگاؤ ہتھکڑی.. میں نے جلدی میں مرزا کو الو کا پٹھا کہا اور انہوں نے عدالت میں.. اب سیدھی بات ھے کہ مجھے بھی چھوڑ دو یا پھر مجسٹریٹ صاحب کو بھی گرفتار کرلو.."
مجسٹریٹ نے مولانا احمد علی جالندھری رحمٰۃ اللہ علیہ کو باعزت بری کردیا..!!
"تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت تک"

خدا آگاہی.."
محمد بن قدامہ رحمتہ اللہ علیہ سے بشر بن حارث رحمتہ اللہ علیہ (ایک عظیم عالم ' عبادت گزار اور خدا کے عارف) کا واقعہ مروی ھے کہ بشر رحمتہ اللہ علیہ کا ایک شرابی کے پاس سے گزر ھوا..
شرابی کو جب پتہ چلا کہ یہ بشر بن حارث رحمتہ اللہ علیہ ھیں تو وہ ادب سے آگے بڑھا' آپ کا ھاتھ پکڑ کر چوما اور عقیدت سے کہنے لگا.. "سیدی..!"
بشر رحمتہ اللہ علیہ نے اسے قریب کیا اور اس کیلئے محبت ظاھر کی.. جب وہ چلا گیا تو بشر رحمتہ اللہ علیہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے.. کہنے لگے.. "یہ شخص ایک انسان سے محبت کرتا ھے' محض ایک ایسی خیر کے باعث جس کے بارے میں اسے وھم ھو گیا کہ یہ اس انسان کے اندر پائی جاتی ھے.. محبت کرنے والا تو شاید خیر کی اسی محبت کے ناتے چھوٹ جائے مگر جس شخص میں یہ خیر فرض کرلی گئی اس کا حال خدا ھی جانے کہ اس کے دامن میں کیا ھے.."
پھر بشر رحمتہ اللہ علیہ راستے میں پھلوں کے پاس رک گئے.. پھلوں کو وہ بہت غور سے دیکھ رھے تھے.. میں نے عرض کی.. "ابو نصر ! کیا میوے کی کچھ طلب ھو رھی ھے..؟"
فرمانے لگے.. "نہیں.. میں ان میٹھے رسیلے میووں کو دیکھ رھا ھوں جنہیں کچھ دیر بعد کوئی بھی خرید لے جائے گا.. بعید نہیں وہ خدا کا کوئی نافرمان ھو..
دیکھو ! خدا اپنے نافرمان کو بھی اتنے میٹھے پھل کھلا دے گا.. میں سوچتا ھوں وہ پھل کیسے میٹھے ھوں گے جنہیں وہ صرف اپنے فرمانبرداروں کو کھلانے کا روادار ھوگا اور جن سے جنت میں وہ اپنے پیاروں کی ضیافتیں کیا کرے گا اور وہ مشروب آخر کیسا ھوگا جس سے جام بھر بھر کر خدا کے فرمانبردار پیا کریں گے..
ارے او بھائیو ! یہ غفلت کی نیند آخر کب تک..؟ یہ دِن اور رات کی ایک دوسرے کے ساتھ جو دوڑ لگی ھے اور مہینوں اور سالوں کا تانتا بندھا ھے یہ تمہیں کیا لوریاں دے کر سلاتا ھے..؟
اگر نہیں تو پھر تمہیں بےمقصدیت سے جگانے کیلئے کیا چیز آئے..؟
یہاں محلات میں جو بسا کرتے تھے دیکھو تو سہی اب بھلا وہ کہاں جا بسے..؟
ان گھروں میں جن کی چہک سنی جاتی تھی' اب وہ کہاں جا چکے..؟ بخدا موت کا وہ دور جو اس بزم حیات میں مدام چلتا ھے ' یہ اسی کی زد میں تو آئے ھیں..
دیکھو ! موت ان کو کیسے چگ گئی جیسے کبوتر ایک ایک کرکے زمین پہ بکھرے دانے چگ لیتا ھے.. یہ رکا ھی کب ھے..؟
دیکھو ! یہ ابھی بھی چگے ھی تو جا رھا ھے.. یہاں کوئی "دانہ" پڑا تھوڑی رھے گا.. ھر کسی کی باری اور ھر کسی کا نام درج ھے.. قلمیں روشنائی سے سوکھ چکیں اور صحیفے لپیٹے جا چکے..!!
بجائے اس کے کہ اس نفس کو کل روؤ اور پھر روتے ھی جاؤ ' آج ہی کچھ اس پر رو لو..!!"
"بحر الدموع " مؤلفہ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ.. فصل چہارم.. ص 27..

حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زندگی بھر کسی شخص نے بھی کسی معاملہ میں مجھے اس طرح شکست نہیں دی جس طرح بلخ کے ایک نوجوان نے دی.. میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں اس سے ہار گیا..
شاگردوں نے پوچھا.. " حضرت ! اصل واقعہ کیا ہے.. "
فرمایا.. " ایک دفعہ بلخ کا ایک نوجوان حج کو جاتے ہوئے میرے پاس حاضر ہوا جو انتہائی متوکل اور صابر نوجوان تھا.. اس نے مجھ سے سوال کیا کہ زہد کی حقیقت آپ کے نزدیک کیا ہے..
میں نے کہا کہ جب ہمیں ملے تو کھالیں اور جب نہ ملے تو صبر کریں..
اس نے کہا ایسے تو ہمارے ہاں بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں.. جب ملے کھالیتے ہیں اور جب نہ ملے تو صبر کر لیتے ہیں.. یہ تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے..
میں نے پوچھا تو پھر تمہارے ہاں زہد کی حقیقت کیا ہے..
وہ کہنے لگا جب ہمیں نہ ملے تو پھر بھی حمد و شکر کریں اور جب ملے تو دوسرں پر ایثار کر دیں.. یہ ہے زہد کی حقیقت..!! "

Thursday 10 April 2014


انگریزوں کے زمانے میں ایک عالم بغاوت کے الزام میں جیل میں بند تھے۔ جمعے والے دن نہا دھو کر ' تیل کنگھی کر کے انتظار میں رہتے.. جونہی جمعے کی اذان ہوتی تیز تیز قدموں سے چلتے جیل کے مین گیٹ پر کھڑے ہو جاتے اور پوری اذان جیل کے گیٹ کی سلاخیں پکڑ کر سنتے اور پھر واپس آ جاتے..
انگریز جیلر جو اُن کا یہ معمول دیکھ رہا تھا' آخر اس نے حافظ صاحب کو دفتر طلب کیا اور پوچھا.. " تم یہ کیا تماشہ کرتے ہو ہر جمعے والے دن..؟ جب تم کو معلوم ھے کہ جیل کا دروازہ بند ہے اور تم اس سے باہر نہیں جاسکتے تو پھر اتنے دور چل کر جانے کا کیا مقصد ہے..؟"
حافظ صاحب نے جواب دیا.. "جیلر صاحب ! میرے رب کا مجھے حکم ہے کہ جب جمعے کی اذان سنو تو سارے کام چھوڑ کر جھٹ پٹ مسجد پہنچو.. میں جہاں تک یہ حکم پورا کر سکتا ہوں کر دیتا ہوں.. اس امید کے ساتھ کہ آگے میری مجبوری کو دیکھ کر میرا رب میری حاضری خود لگا دے گا کیوں کہ وہ فرماتا ہے کہ وہ کسی کی استطاعت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا.. مجھے امید ہے میرا رب مجھے جمعے کا اجر عطا فرما دے گا اگرچہ میں جیل میں ظہر پڑھتا ہوں.. جو چیز آپ کو تماشہ لگتی ہے وہ میرے لیئے دین اور ایمان کا مسئلہ ہے.."
بس ہمارا معاملہ بھی یہی ہونا چاہیے.. جہاں تک اسلام میں وسعت موجود ہے اور ہم کر سکتے ہیں وہاں تک دین کے دائرے میں رہتے ہوئے کوشش کرتے رہیں اور جو بس میں نہیں ہے اس کے لیے اللہ سے امید رکھیں اور دعا کرتے رہیں..
حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ھیں..
خود کو اچھی طرح ٹٹول لو اور تین مواقع پر اپنے ذھن کی کیفیت نوٹ کرلیا کرو..
نماز پڑھنے کے دوران..
قرآن پڑھتے وقت..
اور اللہ کا ذکر کرتے وقت..
ان تین مواقع پر اگر تم لطف و کیف محسوس کرو تو ٹھیک ورنہ جان لو کہ "دروازہ" بند ھے..!!
وہ ایک سخت گیر افسر کے طور پر مشہور تھا۔ تمام ماتحت اس سے بے انتہا ڈرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ہر کام وقت پر اور احسن طریقے سے ختم ہو تاکہ اسکی ناراضگی سے بچا جا سکے۔
ایک دن اس افسر کو اچانک کسی فائل کی ضرورت پڑ گئی۔ اس نے اپنے ایک ماتحت کو کال کی اور اسے اپنے دفتر میں آنے کو کہا۔ پانچ منٹ گزر گئے لیکن وہ نہیں آیا۔ افسر کو بہت غصہ آیا۔ اس نے دوبارہ کال کی اور ماتحت نے معافی مانگتے ہوئے ابھی آنے کا وعدہ کیا لیکن پانچ منٹ مزید گزر گئے اور وہ نہیں آیا۔
افسر کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے تقریباً چیختے ہوئے فوراً اسے اپنے دفتر میں آنے کو کہا۔ پانچ منٹ مزید گزر گئے اور وہ نہ آیا۔ افسر کا غصہ اپنی انتہائی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ اس نے اپنے سیکرٹری کو کہا کہ اس ماتحت کو آفس میں لے کر آئے۔ 
تھوڑی دیر بعد وہ سیکرٹری اکیلا واپس آ گیا اور بتایا کہ وہ تو کھانا کھانے کیلئے دفتر سے باہر چلا گیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ اس افسر کی برداشت کا مادہ ختم ہو گیا۔ اس نے اسی وقت اس ماتحت کے موبائل پر کال ملائی اور اسے کہا کہ اگر تم اگلے پانچ منٹ میں آفس نہیں پہنچے تو اپنے آپ کو نوکری سے برخاست سمجھو۔ 
ٹھیک پانچ منٹ انتظار کرنے کے بعد اس افسر نے ایچ آر مینجر کو آرڈر جاری کیا کہ اس ماتحت کو نوکری سے برطرف کر دیا جائے۔
اگلے دن وہ ماتحت آفس آیا تو افسر اس کی شکل دیکھ کر ہی برس پڑا:
"اب کیوں آئے ہو یہاں؟ تمہیں نکال دیا گیا ہے نوکری سے، دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"
ماتحت خاموشی سے سنتا رہا، پھر کہا: "سر! میں نے یہ سب آپ کو ایک سبق دینے کے لیے کیا تھا۔"
"سبق؟؟ کیسا سبق؟؟" افسر نے آنکھیں نکالیں۔
"سر یہ سبق کہ میری صرف ایک دن کی غفلت سے آپ نے مجھے نوکری سے نکال دیا، اور آپ جو روزانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اُس مالکِ کائنات کے حکم پر، جب وہ آپ کو دن میں پانچ بار نماز کی طرف بلاتے ہیں۔ 
ہر اس موقع پر آپ کی غفلت اور نافرمانی دیکھنے کو ملتی ہے جب آپ اپنے ملازموں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں جبکہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
میری ایک دن کی غفلت نے مجھے نوکری سے نکلوا دیا، سوچیں جب آپ عمر بھر کی غفلتیں لے کر اس مالکِ کائنات کے پاس جائیں گے تو کیا سلوک ہو گا آپ کے ساتھ؟ کبھی سوچا آپ نے؟؟؟"
ماتحت یہ کہہ کر باہر نکل گیا، اور اس افسر کو سوچ کے ایک وسیع سمندر میں چھوڑ گیا۔