معزز ممبران: عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جمعہ کے دن کی فضیلت اور نماز کے مسائل وغیرہ پر عموماً مردوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے. کبھی جمعہ کے دن خواتین کے مسائل پر توجہ نہیں کی گئی. لہٰذا خواتین کے جمعہ کے مسائل پر یہ پوسٹ حاظرِ خدمت ہے۔
خواتین کے لیئے جمعہ کے مسائل:
اس امت کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات اور بہترین فضائل سے نوازا ہے، ان میں سے ایک جمعہ کا مبارک دن بھی ہے، جس سے یہود ونصاری محروم کر دیئے گئے۔
ایک روایت میں آتا ہے، "بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوا وہ جمعہ کا دن ہے، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیئے گئے، اور اسی دن وہ جنت مں داخل کئے گئے، اور جنت سے اسی دن زمین پر بھیجے گئے، اور قیامت بھی جمعہ کے دن ہی قائم ہو گی."
لیکن اس کے ساتھ ہی خواتین، بچے، مسافر اور معذور پر جمعہ فرض نہیں کیا گیا۔
عورت پر جمعہ فرض نہیں، لیکن اگر جمعہ کی نماز میں شریک ہو جائے تو اس کا جمعہ ادا ہو جائے گا اور ظہر کی نماز ساقط ہو جائے گی.
( آپ کے مسائل اور اُن کا حل - مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ؒ )
جمعہ کے دن غسل کرنے کی فضیلت :
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، "تم میں سے جو شخص جمعہ پڑھنے آئے تو غسل کرے۔"
(حدیث نمبر 894، صحیح بخاری)
لہذا جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے۔ لیکن جو لوگ جمعہ کی نماز کے لئے نہ آئیں۔۔ جس پر جمعہ فرض نہیں ۔۔ جیسے عورتیں، بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔
ماسوا اس کے کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں نماز پڑھنے کی نیّت سے جائیں تو ہر بالغ پر غسل واجب ہوگا۔ دوسری صورت میں ہر سات دن میں جمعہ کے دن نہا دھو کر پاک صاف ہونے کی تاکید احادیث میں آئی ہے۔
جمعہ کے دن ایک گھڑی جس میں دعا قبول ہوتی ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے ذکر میں ایک دفعہ فرمایا کہ اس دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان بندہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی چیز اللہ پاک سے مانگے تو اللہ پاک اسے وہ چیز ضرور دیتا ہے۔ ہاتھ کے اشارے سے آپ ﷺ نے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے۔
(حدیث نمبر 935، صحیح بخاری)
خواتین کی اکثریت کیونکہ بہت زیادہ لغو اور بیکار باتوں میں مشغول رہتی ہیں، شوہر کی احسان فراموش ہوتی ہیں، غیبت کرنے کی شوقین ہوتی ہیں۔۔ لہٰذا انھیں چاھئے کہ لغو اور بیکار باتوں، غیبت وغیرہ سے خود کو بچائیں اور کثرت سے ذکر اور استغفار میں مشغول رہیں اور جمعہ کے دن خاص طور پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار کریں اور اپنے لئے ہدایت مانگیں.
جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت :
جمعہ کے دن کثرت سے درود شریف پڑھنے کی فضیلت آئی ہے۔ جمعہ کے دن جو شخص درود پاک پڑھتا ہے اُس کا درود اس کے نام کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔ تو خواتین کو چاہیئے کہ عام حالات میں بھی اور خاص طور پر جمعہ کے دن درودِ پاک کثرت سے پڑھیں اور فضول اور لایعنی باتوں سے پرہیز کریں.
جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھنے کی فضیلت :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "جس نے جمعہ کے روز سورۃ الکھف کی تلاوت کی اس کیلئے اللہ تعالی دو جمعوں کے درمیان ایک نور روشن فرما دیتا ہے ۔"
(بروایت حاکم و بیہقی، صحیح الجامع الصغیر ، للالبانی، حدیث 6346)
’’حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، "جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اس کے قدموں کے نیچے سے لیکر آسمان تک نور پیدا ہوتا ہے جو قیامت کے دن اس کے لیے روشن ہو گا اور اسکے دونوں جمعوں کے درمیان والے گناہ معاف کر دیۓ جاتے ہیں‘‘
(الترغیب والترھیب 1 /298)
جمعرات کے دن سورج غروب ہونے سے لے کر جمعہ کے دن سورج غروب ہونے تک سورۃ الکھف کی تلاوت کی جا سکتی ہے.
مساجد میں عورتوں کے جانے کی ممانعت :
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، "عورت کی نماز جو اُس کے کمرے میں ہو، وہ اُس نماز سے بہتر ہے، جو اُس کے دالان میں ہو۔ اور اُس کی نماز جو اندر والے خصوصی کمرے میں ہو، وہ اُس نماز سے بہتر ہے جو کسی عام کمرے میں ہو"
ایک اور حدیث میں ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے، "عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے، اور بےشک جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اُسے تکنے لگتا ہے اور عورت اُس وقت سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہوتی ہے، جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے.
(رواہ ابو داؤد ابن خزیمہ فی صحیحہ ، کزافی الترغیب والترہیب )
ان روایتوں میں عورتوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ نماز پڑھنے کے لیئے مسجد میں جانے کی فکر میں نہ پڑیں کیونکہ گھر سے باہر طرح طرح کے آدمی ہیں۔ شیطان کے لشکر ہیں، فاسق و فاجر لوگ ہیں جن کا شیوہ بدنظری اور گناہ گاری ہے۔ یہ لوگ باہر نکلنے والی عورت پر شیطان کے توجّہ دلانے پر اپنی نظریں گاڑ دیتے ہیں۔ جیسے مَردوں کے ذمّے مال کمانا اور ضرورت کی چیزیں فراہم کر کے لانا ہے، کیونکہ وہ باہر نکلتے ہیں، اسی طرح سے مساجد میں جا کر نماز باجماعت کی ادائیگی بھی اُن کے ذمّے لازم کر دی گئی ہے۔ عورت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے گھر سے باہر نہ نکلے۔ ہاں اگر کوئی بہت مجبوری ہو تو خوب زیادہ پردہ کے اہتمام کے ساتھ نکلنے کی اجازت دی گئی ہے.
حضرت اُم رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک صحابیہ تھیں، اُنہوں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ ﷺ، میں آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کو محبوب رکھتی ہوں۔"
آپﷺ نے فرمایا، "مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہو حالانکہ تمہارا کمرے میں نماز پڑھنا دالان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور دالان میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور باھر کے صحن میں نماز پڑھنا تمہارے اپنے قبیلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارے قبیلے کے مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم میری مسجد میں آکر نماز پڑھو"
(راوی کا بیان ہے کہ) یہ بات سن کر حضرت اُمِّ حمید رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنے نماز پڑھنے کی جگہ اپنے گھر کے بالکل آخری اندرونی حصّہ میں مقرّر کرلی جہاں خوب تاریکی تھی اور موت آنے تک برابر اس میں نماز پڑھتی رہیں.
(الترغیب والترہیب بروایت احمد و ابن خزیمہ و ابن حبان)
اُس زمانے کی عورتوں میں دین کی باتوں پر عمل کرنے کا جذبہ تھا۔ انہوں نے سرورِ دوعالم ﷺ کی بات سن کر اپنے گھر کے بالکل اندر نماز کی جگہ بنا لی اور وہیں نماز پڑھتی رہیں۔ آج کل کی عورتیں حدیثیں بھی سنتی ہیں، کتابیں بھی پڑھتی ہیں، اور جو شریعت میں پردے کی اہمیت ہے، اسے بھی جانتی ہیں لیکن پھر بھی عمل کرنے سے گُریز کرتی ہیں. بعض عورتوں کو نماز کا شوق اور ذوق ہوتا ہے جو بہت مبارک ہے، لیکن مسجدوں میں جا کر نمازیں پڑھنے کی رغبت رکھتی ہیں، اور بہت سے مواقع (مثلاً شبِ برأت، ختم قرآن وغیرہ ) میں مساجد میں پہنچ جاتی ہیں اور اس میں ثواب سمجھتی ہیں، حالانکہ بے پردگی ہو جاتی ہے اور بچّے ساتھ ہونے کی وجہ سے مسجد کی بےحُرمتی بھی ہوتی ہے۔ وہاں بیٹھ کر باتیں بھی بناتی ہیں جس سے مَردوں کی جماعت میں خلل آتا ہے۔ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جن سے پرہیز کرنا لازم ہے.
اس سلسلے میں یہ احادیث مبارکہ دیکھئے۔
"اُس عورت کی نماز قبول نہ ہوگی جو مسجد میں جانے کے لئے خوشبو لگائے، جب تک ایسا غسل نہ کرے جیسا ناپاکی دور کرنے کے لیئے پورا غسل کیا جاتا ہے." (رواہ ابو داؤد )
"اور اس پر قانون تھا کہ فرض نماز کا سلام پھیر کر پہلے عورتیں چلی جاتی تھیں ( اُن کی صف سب سے پیچھے ہوتی تھی ). حضورِ اقدس ﷺ اور آپ کے ساتھ دوسرے نمازی اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے تھے، جب عورتیں چلی جاتیں تب اٹھتے تھے۔"
(صحیح بخاری ، حدیث نمبر 119، 120)
آج کل نہ تو پردے کا اہتمام ہے، نہ مَردوں میں تقوٰی اور طہارت ہے، نہ عورتوں میں سادہ لباس کا رواج ہے۔ خوب بن ٹھن کر خوشبو لگا کر نکلتی ہیں، برقعہ پہنتی ہیں تو بھڑک دار اور پھولدار اور بہت سی عورتیں منہ کھول کر چلتی ہیں۔ کچھ ایسی بھی ہیں جن کے نقاب میں چہرہ جھلملاتا رہتا ہے، ان حالات میں باہر نکلنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
امُ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنے زمانے کی عورتوں کے بارے میں فرمایا تھا، "حضورِ اقدس ﷺ اگر عورتوں کا یہ رنگ ڈھنگ دیکھ لیتے جو انہوں نے آج بنا لیا تو اُن کو ضرور (سختی کے ساتھ) مسجد میں آنے سے منع فرماتے۔ جیسا کہ دوسری امتوں میں بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں."
(بخاری شریف ص 120، جلد اوّل )
(ماخوذ از تحفۂ خواتین - مولانا محمد عاشق الٰہی بلندشہری مدظلہ العالی)