Pages

Friday 28 March 2014

ایک شخص تھا جو کبھی کبھار چوری چکاری کر لیا کرتا تھا۔ ایک بار اس کے اندر کچھ زیادہ پیسہ بنانے کی خواھش پیدا ہوئی، کیونکہ وہ اپنی محبوب بیوی کو کچھ دینا چاہتا تھا یا اپنی ذات کے لئے رکھنا چاہتا تھا-
اس نے ایک رات ایک گھر کے روشن دان میں سے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی کہ یہ اچھا گھر ہے، اور مجھے یہاں سے کوئی مال و متاع ملے گا۔ لیکن جب وہ اتنا اونچا چڑھا، اور روشن دان کے اندر سے گزرنے کی کوشش کی، تو وہ روشن دان جس کا چوکھٹا بظاہر ٹھیک نظر آتا تھا ، ڈھیلا لگا ہوا تھا۔ وہ بمعہ چوکھٹے اندر کے فرش پر سر کے بل آگرا ، اور اس کو سخت چوٹیں آئیں ، چنانچہ اس نے وہ چوکھٹا اٹھایا اور قاضیء وقت کے پاس شکایات کے لئے لے گیا-
دیکھیں کیا کمال کے آدمی تھے۔
اس نے کہا ، جناب دیکھیں میں چوری کرنے کے لئے وہاں گیا تھا - یہ کیسا نالائق مستری ہے کہ جس نے ایسا چوکھٹا بنایا کہ یہ ٹوٹ گیا ہے ، اور کرچیاں کرچیاں ہو گئیں ہیں تو اس کو سزا ملنی چاہئے۔
قاضیء وقت نے کہا ، یہ تو واقعی بری بات ہے - تم اپنے گھر جاؤ میں ابھی اس مالک مکان کو بلواتا ہوں ۔ چنانچہ مالک مکان کو بلوایا گیا اور اس سے کہا کہ اسکی وجہ سے ایک انسان کو چوٹ لگی جس کی اسے سزا دی جائے گی ۔
مالک مکان نے کہا جناب میرا کوئی قصور نہیں، یہ تو لکڑی بیچنے والے کا قصور ہے جس نے ناقص لکڑی بیچی، جو ٹوٹ گئی ۔ قاضیء وقت نے اس لکڑی بیچنے والے کو بلانے کا حکم دیا، چنانچہ وہ پیش ہو گیا -
اس نے کہا ، جناب اس گھر کی کھڑکی تو میں نے ہی بنائی تھی - اس سے کہا گیا تم نے ایسی ناکارہ قسم کی لکڑی لگائی - اس نے کہا جناب اس لکڑی کو بھی دیکھ لیں، اس میں کوئی نقص نکلا تو میں ذمہ دار ہوں- حضور بات یہ ہے کہ اس میں خرابی ہماری لکڑی کی نہیں اس ترکھان کی ہے جس نے یہ چوکھٹا صحیح نہیں بنایا -
انھوں نے ترکھان یا بڑھئی کو بلایا تو وہ پیش ہو گیا - ترکھان نے کہا میں نے چوکھٹا بالکل ٹھیک بنایا ہے، یہ میرا قصور نہیں آپ ماہرین بلوا لیں وہ بتادیں گے میرے چوکھٹے میں کوئی خرابی نہیں - میں یقین سے کہتا ہوں یہ چوکھٹا بلکل ٹھیک ہے - راج معمار، جس نے اس کو فِٹ کیا تھا، یہ ساری کوتاہی اس کی ہے چنانچہ راج معمار کو بلوایا گیا وہ عدالت میں پیش ہو گیا -
قاضیء وقت نے کہا ، اے نالائق آدمی بہت اعلیٰ درجے کا چوکھٹا بنا ہوا ہے، جوڑا بھی صحیح گیا ہے، تو نے کیوں"موکھا" اس کا ڈھیلا بنایا ، تو نے صحیح طور پر اسے کیوں نہیں لگایا؟
اس نے سوچا واقعی عدالت ٹھیک پوچھ رہی ہے - چوکھٹے میں اور دیوار میں فاصلہ تو ہے - اس نے کہا، حضور بات یہ ہے ، مجھے اب یاد آیا ، جب میں چوکھٹا لگا رہا تھا تو میں نے باہر سڑک پر دیکھا، اس وقت ایک نہایت خوبصورت عورت اعلیٰ درجے کا لباس پہنے ، بے حد رنگین لہنگا اور بے حد رنگین دوپٹہ اوڑھے جا رہی تھی، مزے سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی۔ تو میری توجہ اس کی طرف ہو گئی - جب تک وہ سڑک پر چلتی رہی میں اس کو دیکھتا رہا، میں پوری توجہ کام پر نہ دے سکا اور چوکھٹے کو صحیح طرح سے نہ لگا سکا -
انھوں نے کہا اس عورت کو بلاؤ۔
عورت کو سب تلاش کرنے لگے، شہر میں سب جانتے تھے کہ جو چھمک چھلو تھی کہ وہ وہی ہو گی، سو عدالت میں پیش کر دیا گیا -
پوچھا گیا کیا تم یہاں سے اُس روز گزری تھیں؟ اس نے کہا ہاں میں گزری تھی - اس نے کہا تم نے ایسا لہنگا پہنا ، ایسا غرارہ پہنا تھا ، تو کیوں پہنا تھا؟
اس عورت نے بتایا، حضور بات یہ ہے کہ میرے خاوند نے مجھ سے کہا یہ تم کیا پھیکے رنگ پہنتی ہو - یہ کچھ اچھے نہیں لگتے ، تمہارے رخِ زیبا کے اوپر یہ کپڑے سجتے نہیں ہیں - بہت اعلیٰ قسم کے شوخ ، اور بھڑکیلے قسم کے لباس پہنو -
عدالت نے کہا اس کے خاوند کو حاضر کیا جائے۔
چنانچہ وہ اس کے خاوند کو پکڑ کر لے آئے ، عدالت کے سامنے پیش کر دیا - وہ خاوند وہی شخص تھا ، جو روشن دان سے چوری کرنے کے لئے اترا تھا-
اس کی خواہش میں وہ خود کھڑا تھا۔۔!!
اتنا چکر کاٹ کر آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کیا گزر رہی ہے - وہ کہاں پر اپنی ہی خواہش ، اپنی ہی آرزو کے درمیان کھڑا تھا -
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ
ﻗﯿﺪﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻗﺘﻞ
ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﺟﺐ ﭘﯿﺎﺩﮮ ﺍﺳﮯ ﻗﺘﻞ ﮔﺎﮦ ﮐﯽ
ﻃﺮﻑ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺑﺮﺍ ﺑﮭﻼ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ
ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺳﺰﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﯽ ﮐﮧ
ﺍﺳﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺳﺰﺍ ﺳﻨﺎﺋﯽ
ﺟﺎﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ
ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ
ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﯿﮏ ﺩﻝ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺩﺭﺳﺖ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎ ﺩﯼ ﺗﻮ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ
ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺯﻧﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ
ﺍﺱ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﻭﺳﺘﻢ ﮈﮬﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ
ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﯾﮧ
ﺷﺨﺺ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ " ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﻏﺼﮯ ﮐﻮ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ
ﺑﮭﻼﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ "
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ
ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﺯﯾﺮ ﺟﻮ ﻧﯿﮏ ﺩﻝ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ
ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺪ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﻮﻻ " ﯾﮧ ﮨﺮ ﮔﺰ ﺩﺭﺳﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻭﺯﯾﺮ
ﺍﺳﮯ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﭻ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ
ﺯﺑﺎﻥ ﭘﺮ ﻻﺋﯿﮟ ، ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺁﭖ ﮐﯽ
ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ "
ﻭﺯﯾﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﺍﮮ ﻭﺯﯾﺮ !
ﺗﯿﺮﮮ ﺍﺱ ﺳﭻ ﺳﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺑﻐﺾ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻨﮯ ﭘﺮ
ﮨﮯ
ﺍﺱ ﺳﺖ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﻏﻠﻂ ﺑﯿﺎﻧﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺍﺱ
ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﺑﭻ ﮔﺌﯽ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮫ ﺍﺱ ﺳﭻ
ﺳﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻓﺴﺎﺩ ﭘﮭﯿﻠﺘﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﺟﮭﻮﭦﺑﮩﺘﺮ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﻧﮯ
ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﻮ "
ﻭﮦ ﺳﭻ ﺟﻮ ﻓﺴﺎﺩ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﺮ ﻧﮧ
ﺁﺋﮯ
ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﺬﺏ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﭻ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻓﺴﺎﺩﮐﯽ ﺁﮒ
ﺑﺠﮭﺎﺋﮯ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻓﺴﺎﺩﯼ ﻭﺯﯾﺮ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮﺍ ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻗﯿﺪﯼ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺑﺤﺎﻝ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﺼﯿﺤﺖ
ﮐﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﺸﻮﺭﻭﮞ ﭘﮧ
ﻋﻤﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﺯﯾﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻣﻨﮫ
ﺳﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﺎﻟﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ
ﺑﮭﻼﺋﯽ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ " ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﯼ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺤﺮﺣﺎﻝ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮ ﯾﺎ
ﻓﻘﯿﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟﭘﮍﺗﺎ ﮐﮧ ﺭﻭﺡ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﻗﺒﺾ
ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ "

Tuesday 25 March 2014

درد ناک قصہ
اس عورت کی ایک ہی بیٹی تھی جس کی عمر چار پانچ سال تھی وہ اپنی بیٹی کا بہت خیال رکھتی تھی وہ ہمیشہ اسے صاف ستھرا رکھتی بال سنوارتی پونیاں بناتی تاکہ اس کی بیٹی سب سے خوبصورت لگے،
کچھ دنوں سے وہ عورت بہت پریشان تھی اس کی بیٹی کو عجیب بیماری لگ گئی تھی کہ اس کی آنکھیں ہمیشہ اوپر کو چڑھی رہتی
اس نے بہت سے ڈاکٹرز کو دکھایا لیکن پھر بھی مسلئہ حل نہ ہوسکا
کسی نے اسے بتایا کہ ایک بابا جی ہیں انہیں دکھاؤ شاید کوئی علاج ہو سکے۔
اس نے باباجی کو اپنا مسئلہ بتایا اور اپنی بیٹی دکھائی۔
بابا جی نے ایک منٹ میں اس کا علاج کردیا وہ عورت بہت حیران ہوئی اور بابا جی سے پوچھا کہ بابا جی آپ نے کیا علاج کیا کہ میری بیٹی تو بالکل ٹھیک ہوگئی
بابا جی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کوئی خاص علاج نہیں بس اس کی پونیاں ڈھیلی کردی ہیں۔۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم بات کو سمجھنے کے لیے نہیں سنتے
بلکہ
جواب دینے کے لیے سنتے ہیں ۔
ماں چاہے تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ ہو
لیکن زندگی میں آپ کبھی بھی کہیں فیل ہوتے ہیں تو بہترین نصیحت ماں سے ہی ملتی ہے ۔

Sunday 23 March 2014

ترکستان کا بادشاہ لمبی عمر کا خواہاں تھا‘ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا‘ اس کے طبیبوں نے بتایا‘ ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں آب حیات کی تاثیر ہے‘ آپ اگر وہ جڑی بوٹیاں منگوا لیں تو ہم آپ کو ایک ایسی دواء بنا دیں گے جس کے کھانے کے بعد آپ جب تک چاہیں گے زندہ رہیں گے‘ ترکستان کے بادشاہ نے دس لوگوں کا ایک وفد تیار کیا اور یہ وفد ہندوستان کے راجہ کے پاس بھجوا دیا‘ اس وفد میں ترکستان کے طبیب بھی شامل تھے اور بادشاہ کےانتہائی قریبی مشیر بھی‘ وفد نے ہندوستان کے راجہ کو ترک بادشاہ کا پیغام پہنچا دیا‘ راجہ نے پیغام پڑھا‘ قہقہہ لگایا‘ سپاہی بلوائے اور وفد کو گرفتار کروا دیا‘ راجہ گرفتاری کے بعد انھیں سلطنت کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے قریب لے گیا‘ اس نے پہاڑ کے نیچے خیمہ لگوایا‘ ان دس لوگوں کو اس خیمے میں بند کروایا اور اس کے بعد حکم جاری کیا‘ جب تک یہ پہاڑ نہیں گرتا‘ تم لوگ اس جگہ سے کہیں نہیں جا سکتے‘ تم میں سے جس شخص نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس کی گردن کاٹ دی جائے گی۔

راجہ نے اپنا فوجی دستہ وہاں چھوڑا اور واپس شہر آ گیا‘ ترکستانی وفد کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی‘ وہ پہاڑ کو اپنی مصیبت سمجھنے لگے‘ مشکل کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں تھا‘ وہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے‘ وہ صرف کھانا کھانے‘ رفع حاجت یا پھر وضو کرنے کے لیے سجدے سے اٹھتے تھے اور پھر اللہ سے مدد مانگنے کے لیے سجدے میں گر جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا چنانچہ ایک دن زلزلہ آیا‘ زمین دائیں سے بائیں ہوئی‘ پہاڑ جڑوں سے ہلا اور چٹانیں اور پتھر زمین پر گرنے لگے‘ ان دس لوگوں اور سپاہیوں نے بھاگ کر جان بچائی‘ راجہ کے سپاہی ان دس لوگوں کو لے کر دربار میں حاضر ہو گئے‘ انھوں نے راجہ کو سارا ماجرا سنایا‘ راجہ نے بات سن کر قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ان دس ایلچیوں سے کہا‘ آپ لوگ اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ‘ اسے یہ واقعہ سناؤ اور اس کے بعد اسے میرا پیغام دو‘ اسے کہو ’’ دس لوگوں کی بددعا جس طرح پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر سکتی ہے بالکل اسی طرح دس بیس لاکھ عوام کی بددعائیں بادشاہ کی زندگی اور اقتدار دونوں کو خاک میں ملا سکتی ہیں‘ تم اگر لمبی زندگی اور طویل اقتدار چاہتے ہو تو لوگوں کی بددعاؤں سے بچو‘ تمہیں کسی دوا‘ کسی بوٹی کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔